وطنی شناخت کے حوالے سے اپنے اوپر ہندوستانی شہریت کی چھاپ اور ادب کی دنیا میں ممتاز ادیب اور شاعرہ کے طور پر پہچان رکھنے والی امرتا پریتم فرماتی ہیں کہ "تاریخ صرف کتابوں میں نہیں ہوتی۔ تاریخ کتابوں میں لکھے جانے سے بہت پہلے لوگوں کے بدنوں پر لکھی جاتی ہے"۔ جیسا عرض کیا گو کہ وطنی شناخت کے حوالے سے اس ہستی کا تعلق ہندوستان سے تھا لیکن پھر سب نے دیکھا کہ سکھ مذہب کی پیروکار اس عظیم شاعرہ نے اپنی اْس وطنی شناخت سے بالاتر ہو کر برصغیر پاک و ہند کی تقسیم پر ہونے والے مظالم کو اس نظم …؎
اج آکھاں وارث شاہ نوں کتھوں قبراں وچوں بول
تے اج کتاب عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی تْوں ِلکھ ِلکھ مارے وین
اج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن
اْٹھ دردمنداں دیاں دردیاں اْٹھ تک اپنا پنجاب
اج بیلے لاشاں ِوچھیاں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ دِتی زہر رلا
تے انہاں پانیاں نے دھرت نْوں دِتا پانی لا
ایس زرخیز زمین تے لْوں لْوں پْھٹیاں زہر
گٹھ گٹھ چڑھیاں لالیاں پْھٹ پْھٹ چڑھیا قہر
ویہو ولسّی وا فیر وَن وَن وگی جھگ
اوہنے ہر اِک وانس دی انجھلی دِتی ناگ بنا
ناگاں کِیلے لوک مْونہہ بَس فیر ڈنگ ہی ڈنگ
پل او پل ای پنجاب دے نیلے پے گے انگ
وے گلے اوں ٹْٹے گیت فیر، ترکلے اوں ٹْٹی تند
ترنجنوں ٹْٹیاں سہیلیاں چرکھڑے کْوکر بند
سنے سیج دے بیڑیاں لْڈن دِتیاں روڑھ
سنے ڈالیاں پینگ اج پپلاں دِتی توڑ
جتھے وجدی سی پْھوک پیار دی اہ ونجھلی گئی گواچ
رانجھے دے سب وِیر اج بْھل گئے اوہدی جاچ
دھرتی تے لہْو وسیا قبراں پیاں چوون
پرِیت دِیاں شاہ زادیاں اج وِچ مزاراں رون
اج سبھے کیدو بن گئے، حْسن عشق دے چور
اج کیتھوں لیئائے لب کے، اک وارث شاہ ہور
میں کچھ اس دْکھ اور کرب کے ساتھ بیان کیا کہ اْسکی اس جْرات نے نہ صرف اْسے اپنے ہمعصروں کے مقابل ممتاز کر دیا بلکہ اس وقت کے لوگوں کے بدنوں پر لکھی جانے والی تاریخ کے ایک ایک لمحے کو ایسے الفاظ اور ایسے انداز میں محفوظ کر دیا کہ اس نظم کو آج بھی پڑھیں تو انسانیت کے خلاف ہونے والے ان مظالم کی زندہ فلم چل جاتی ہے اور انسانیت کا درد رکھنے والوں کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ستر سال بعد آج جو کشمیر کی صورتحال دیکھ رہا ہوں اور اس نظم کے ایک ایک لفظ کو پڑھ رہا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امرتا پریتم کی یہ نظم اْس وقت کے پنجاب کی نہیں بلکہ آدھ صدی بعد آج کے کشمیر میں ہونے والی بربریت قتل و غارت اور آبروریزی کی تصویر کشی کی کر رہی تھی۔ لگتا ہے اپنی نظم میں وہ پنجاب کے وارث شاہ سے نہیں بلکہ وارث شاہ کے روپ میں اسلام کے کسی راحیل شریف یا قمر باجوہ سے مخاطب تھی۔ یہ ایک کھلی کتاب ہے کہ جہاں تاریخ میں ظْلم کی داستانیں اپنے آپکو بار بار دھراتی ملتی ہیں وہیں پر ہر دور میں انکے خلاف اواز اْٹھانے والے کبھی ناپید نہیں ہوتے جسکی روشن مثال اس وقت 1997 میں اپنے ناول "God of small things" پر "Booker prize" جیتنے والی "ارون دھاتی رائے" ہے جس نے یہ کہہ کر کہ کشمیر انڈیا کا حصہ نہیں ہے پورے بھارت میں صف ماتم بچھا دی ہے اور اس سلسلے میں وہ اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنے کی بھی تیاری کر رہی ہے۔ بات اب صرف ایک امرتا پریتم سے شروع ہو کر ارون دھاتی رائے تک محدود نظر نہیں اتی بلکہ اس جہاد میں بھارت سے تعلق رکھنے والے بہت سے دانشور اور فنکار شامل ہوتے نظر آ رہے ہیں جن میں سرِ فہرست ہارڈ کور کے نام سے جانے والی ترن کور، انوپم کھیر، رنویر شویرے اور سوارا باسکر جیسے لوگ کود پڑے ہیں۔ تاریخی شواہد بتاتے ہیں عروج ہٹلر پر بھی آیا تھا۔ حقائق یہ بھی بتاتے ہیں کہ اْس وقت جرمنی کی معشیت اپنے خطے میں سب سے آگے ترقی کر رہی تھی لیکن ہٹلر شائد اس بات کا ادراک نہ کر سکا کہ انسانیت کے خلاف جب ظلم بڑھتا ہے تو پھر قدرت کا نظام اور اسکی پکڑ خود بخود حرکت میں آ جاتی ہے اور انسان کے اپنے اْٹھائے ہوئے اقدام ہی اسکی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ بیشک اس وقت ہندوستان جنگ عظیم دوئم سے پہلے والے جرمنی کی تصویر پیش کر رہا ہے جسکے توسیع پسندانہ اور جارحانہ عزائم قطعی طور پر ہٹلر سے مختلف نہیں بیشک خطے میں اسکی اکانومی سب سے بہتر ہے لیکن بطور تاریخ کے ایک طالبعلم کے طور پر میرا مطالعہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ جس طرح کشمیر کے نہتے مسلمانوں کے جسموں پر ایک تاریخ لکھی جا رہی ہے اسی طرح جنگ عظیم دوئم میں بھی انسانوں کے بدنوں پر تاریخ لکھی گئی تھی لیکن افسوس اس سے نہ سبق اس وقت کے نشانہ بننے والے یہود نے سیکھا اور نہ ہی تاریخ کا سبق مودی اور اسکے پیروکار انتہا پسند ہندوؤں سیکھ رہے ہیں۔ بیشک اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اسکے گھر دیر ہے اندھیر نہیں لیکن اسکے ساتھ تاریخ ایک اور سبق بھی دیتی ہے کہ قوموں کی قربانیاں اْس وقت رنگ لاتی ہیں جب انکی قیادتیں اپنے ملک اور اپنی قوم سے مْخلص اور وفادار ہوتی ہیں اور جب وہ دوسروں کے مفادات کی جنگیں لڑ رہی ہوتی ہیں تو پھر انکا وہی حال ہوتا ہے جو آج ہمارا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38