اب غلطی کی گنجائش نہیں !
پوری دیانت داری سے 70 سالہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو زمینی حقائق کی روشنی ، اعداد وشمار کے حوالے سے اور موجود مختلف سروسیز کی مدد سے اس نتیجہ پر پہنچنا قطعا مشکل نہین کہ ہمارے ہاں سب سے زیادہ ترقی جنرل ایوب کے عہد میں ہوئی ۔ ایوب خان نے زندگی کے ہرشعبہ میں بلاشبہ عمدہ ترین لوگوں کا انتخاب کر رکھا تھا۔ ایوب خان دنیا کے ان چند سربراہان مملکت میں سے ہیں کہ جن کا امریکہ میں یادگار استقبال ہوا ۔ اس وقت ہماری ریاست کی عزت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی تھی اور ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند تھا۔ اسی طرح اور دیگر جن ممالک میں ایوب خان گئے انہیں زبردست پذیرائی ملی ۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی یہ یادگار دور تھا۔ اندرون ملک ترقیاتی منصوبوں کا جال پھیلایا جا رہا تھا۔ تربیلا ڈیم۔ منگلا ڈیم اور وارسک ڈیم کی تعمیر اسی دور میں ہوئی۔ انڈسٹری نے اسی زمانے میں بننا اور ترقی کرنا شروع کیا ۔ داخلہ امور کچھ اس قدر تھے کہ مغربی پاکستان میں نواب کالا باغ کے ایک اشارے پر کوئی چوں چراں نہ ہوئی ۔ 65 ء کی جنگ بڑے باوقار طریقہ سے لڑی گئی ۔ پوری قوم متحد تھی ۔ ایوب خان کی تقریر بڑی یاد گار تھی ، اس سے قوم کو ایک نیا جذبہ اور ولولہ ملا۔ تعلیم بہت حد تک آسان اور معیار عمدہ ترین تھا۔ سرکاری سکولوں میں ’’ استاد‘‘ کی عزت ہوتی اور اساتذہ بھی اپنے ہیڈ ماسٹر کی قیادت میں بہتر سے بہتر نتائج حاصل کرنے کی کوشش میں لالٹین کی روشنی میں بھی دن رات ایک کردیتے۔ اس وقت نصابی تعلیم کے علاوہ اخلاقی اور دینی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ۔ اخلاقی قدروں کا یہ حال تھا کہ بچہ کسی بڑے کے سامنے بولنے کی جرات نہ کرتا ۔ واقف کار یا انجان کسی بھی مشکل میں ہوتا تو اس کی مدد کی جاتی ۔ خواتین کی خصوصی عزت تھی۔ گلی محلہ کی کوئی بھی لڑکی ماں ، بہن اور بیٹی کی طرح دیکھی جاتی ۔ صحت کے حوالے سے گو وسائل کم تھے مگر اس میں بھی انسانی قدروں کی انتہا بہت کم عمر ہوتے ہوئے بھی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ۔ مریض کسی سرکاری ہسپتال میں جاتا ’’ بھلے لال دوا اور سفید گولی ملتی ‘‘ مگر وہ ہوتی کم از کم ایک نمبر اور افاقہ ہو جاتا ۔ پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس جایا جاتا تو چیک اپ میں ہی مریض کی آدھی تشفی ہو جاتی اور پھر ڈاکٹر کی کوشش یہی ہوتی کہ کم سے کم دوا تجویز کی جائے ۔ میڈیکل سٹور گو کم تھے مگر ادویات اعلٰی معیار کی اور ایکسپائری ڈیٹ کا خصوصی خیال رکھا جاتا ۔ مسجدوں سے مذہب کے علاوہ محبت پیار اور بھائی بھائی ہونے کا درس دیا جاتا ۔ اگر مسجد میں باقاعدگی سے جانے والا کوئی نمازی غیر حاضری کرتا تو ایک آدھ دن کے وقفے سے دیگر نمازیوں کا وفد اس کے گھر پہنچ جاتا کہ معلوم کیا جائے سب ٹھیک تو ہے ؟ کسی گلی محلہ میں وفات ہو جاتی تو اہل علاقہ میزبان بن جاتا۔ خوراک و زراعت کو ہی دیکھ لیں۔ عمدہ ترین کھادیں استعمال کی جاتیں ۔ سبزیاں کھانے کا لطف ہی آجاتا کہ اس وقت لذت بھی کچھ اور تھی ۔ دونمبر کھادیں تھیں اور نہ ہی پیداوار بڑھانے کے مصنوعی طریقے !پھلوں کا بھی یہی حال ۔ گندم ۔ چاول ۔ دالیں۔ شکر ۔ سب کے سب وافر مقدار میں دستیاب ،کاشت کار ۔ تھوک کے کاروباری سے لے کر استعمال کرنے والے سارے ہی خوش ۔ پٹواری شاید اس اس وقت بھی پیسے لیتا ہو ۔ لیکن بحیثیت مجموعی محکمہ مال ، ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور عدلیہ کی بے حد عزت تھی ۔ تحصیلدار ۔ اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ۔ ہفتہ وار کچہریاں لگاتے اور80 فیصد مسئلے وہیں حل ہو جایا کرتے ۔ خوردونوش کی چیزوں میں ملاوٹ نام تک کی نہ تھی ۔ کھیلوں پر خصوصی توجہ دی جاتی اس طرح نوجوان طالب علم کے ساتھ ساتھ اچھے سپورٹس مین بھی ہوتے ۔ پرائیویٹ سکولوں کا بہت کم رواج تھا مگر وہ بھی قصائی بنے اور نہ لٹیرے ۔سرکاری ملازمین گھر بنانے کے سلسلے میں ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے قرضے ضرور لیتے ۔ مگرپائی پائی ادا کرتے ۔ لوگوں طے شدہ طریقوں کے مطابق بنکوں سے قرضے لیتے اور شرائط پوری کرتے ۔ تعمیراتی کاموں کی اس دور میںا یک طویل فہرست تیار کی جا سکتی ہے ۔ مگر محدود سطروں میں لکھنا مشکل ہے ۔ فوجی حوالے سے دوسرا دور( یحییٰ خان کو نظر انداز کرتے ہوے ) جنرل ضیاء الحق کا تھا۔ گو جنرل صاحب نے ایٹم بم دیا مگر سیاست دانوں میں کرپشن اس دور میں شروع ہوئی۔ ایم کیو ایم اس دور میں بنی ۔ ہیروئن اور کلاشنکوف بھی اس دور کے ’’ تحفے ‘‘ میں ۔ اور پھر پرویز مشرف کا دور اس سلسلہ کی آخری کڑی تھی ۔ اس وقت کی سیاسی قیادت اگر ا میر المومنین بننے اور ہر کسی کو اپنا ذاتی ملازم بنانے کی کوشش نہ کرتی تو اس مارشل لاء سے بچا جا سکتا تھا۔ جنرل صاحب کی آمد کے کچھ ہی عرصہ بعد 9/11 ہو گیا ۔ لہذا بین الاقوامی طورپر خطے کے حالات ہی بدل گئے ۔ بلاشبہ اس دور میں بھی بے حد وحساب غلطیاں کی گئیں۔
چند ہی دن قبل سپہ سالار نے ماضی کی کچھ غلطیوں کا ذکر کیا ہے ۔ ہر کسی نے اپنے اپنے انداز میں اس کی تشریح و تفصیل بتانے کی کوشش کی ۔ میری ذاتی دانست میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوجی ادوار کی دو طرح کی غلطیوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اول جو کچھ ان حکومتوں میں نہیں ہونا چاہیے تھا اور دوسرا وہ بہت کچھ جو ان ادوار میں کیا جا سکتا تھا اور اس کی طرف دھیان نہیں دیا گیا ۔ مثال کے طور پر سب سے زیادہ توجہ ملکی معیشت کی طرف ہونا چاہیئے تھا۔ تاکہ ملک کو قرضوں کی دلدل سے نکالا جا سکے ۔ دوسرا اداروں کی شفافیت اور مضبوطی ہے تاکہ وہ دیگر ترقی یافتہ ملکوں کی طرح آزادی سے کام کرسکیں ۔ اسی طرح سب سے زیادہ خیال نیشن بلڈنگ کا ہونا چاہیئے تاکہ ہم سب اچھے’’ انسان ‘‘ اور شہری بن سکیں۔ اب جبکہ ہر طرف کرپشن کا طوفان برپا ہے ۔ ادارو ں اور خاص طور پر عدلیہ اور فوج کی جس طرح بے توقیر ی ہو رہی ہے ۔ امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں ’’ ایسی غلطیاں ‘‘ نہیں دہرائی جا ئیں گی کیونکہ اب غلطی کی گنجائش نشتہ!