ارادہ تو مصر کے سیکولر آئین کو صدر مرسی کے ہاتھوں اسلامی رنگ دینے اور پھر اس پر دوبارہ سیکولر ملمع چڑھانے کے حوالے سے اور شام میں بشار الاسد کے ہاتھوں برپا ’’ شام غریباں‘‘ پر لکھنے کا تھا مگر میرے بہت پیارے دوست اقبال بخاری نے اخبار میرے سامنے رکھتے ہوئے بھکر کے واقعات پر مبنی خبر کی جانب اشارہ کیا مطلب تھا یہ خبر پڑھی جائے بھکر میں جو کچھ ہو اس نے ہر حساس پاکستانی کو دکھی کردیا ہے ،فرقہ وارانہ منافرت تو اس شہر کے لوگوں کیلئے ایک اجنبی شے تھی عقیدے کے لحاظ سے سنیوں اور شعیوں کی واضح تقسیم ان کے باہمی خیر سگالی و خیر خواہی پر مبنی تعلقات پر کبھی اثر انداز نہیں ہوئی تھی۔ اس شہر میں ’’کسی کے عقیدے کو نہ چھیڑو اور اپنے عقیدے کو نہ چھوڑو‘‘ ایک نظریہ نہیں بلکہ زندہ حقیقت تھی یہاں کے موجودہ حالات نے مجھے دکھی کردیا ہے یہ شہر جہاں میرے بہت مہربان دادا سید انوار الحق بخاری اور بہت لاڈ کرنے والے نانا سید عارف حسین شاہ آسودہ خاک ہیں جہاںبہت محبت کرنے والی اکلوتی پھوپھی، پھوپھا اور دیگر رشتہ دار وںکی قبریں ہیں ۔
امام باڑہ مہاجرین اور8کنال پر مشتمل میرے گھر کی وسیع چھتیں ملی ہوئی تھیں مجلس ہوتی تو خواتین وہا ں جمع ہوتیں گھر میں لگے ہینڈ پمپ سے بالٹیاں بھر کر اوپر پانی پہنچانا میری ڈیوٹی بن جاتی پھر اوپر سے ایک آواز آتی چچی یہ مرتضیٰ کے فیڈر میں دودھ ڈال دیں پھر مجھے کئی فیڈر چھت پر لے جانے پڑتے مجلس والے دن میری والدہ مرحومہ شام کو زائد دودھ منگوا لیا کرتی تھیں ایک بزرگ خاتون کی آواز آتی ’’ اسرار بیٹا ایک پان تو لے کر آ‘‘ پھر میری مرحومہ والدہ کا پاندان کھل جاتا اور مجھے ایک نہیں کئی پان پہنچانے پڑتے۔
دسویں محرم کا جلوس مسجد قطب شاہ کے پاس سے گزرا تو زنجیروں سے ماتم کرنے والوں کے خون کے چھینٹے مسجد کی بیرونی دیوار پر پڑ گئے اگلے ہی روز میں نے دیکھا تایا احسان علی اور چچا نذر عباس خود اس دیوار پر سفیدی کروا رہے ہیں مجھے یاد ہے اگلے سال انہوں نے مسجد کے قریب سے گزرتے ہوئے زنجیر کا ماتم بند کرادیا۔ مولانا جعفر شاہ مرحوم کے محلے میں واقع ایک بڑے سے تھڑے پر تعزئیے رکھے جاتے جس کے اردگرد ایک شیعہ کا مکان نہیں تھا تمام گھر سنیوں کے تھے مگر ہر گھر کے باہر عزا داروں کیلئے ٹھنڈے پانی اور شربت کی سبیلیں لگائی جاتیں، میرے پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر حامد شاہ صاحب اور ہائی سکول کے استاد غلام عباس صاحب کمزور طلباء کو چھٹی کے بعد لیکر بیٹھ جاتے ان میں نوے فیصد سنی طلبا ہوتے میرے والد مرحوم مقامی سیاست میں نمایاں حیثیت رکھتے تھے وہ الیکشن لڑتے تو کئی شعیہ لڑکے اور لڑکیاں ان کے پولنگ بوتھوں اور انتخابی کیمپوں میں کام کرتے۔ عید میلاد النبی کا جلوس نکلتا تو ارشاد حسین عابدی، محسن بخاری اور اظہر زیدی اور دیگر اس کے انتظامات میں مصروف نظر آتے۔مدرسہ دارالہدیٰ کے خطیب مولانا عبداللہ کا قال اللہ وقال رسول اللہ پر مبنی دلنشین خطاب میں نے بہت سے شعیوں کو ذوق شوق سے سنتے دیکھا ہے مولانا دیو بندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔
بھکر میں اس فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا کا آج جائزہ لیتا ہوں تو یہ اس وقت دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے مقامی اکابرین کی ہوش مندی کا کرشمہ نظر آتی ہے ،میرے والد سید شمشاد الحق بخاری،غلام حسن خان ڈھانڈلہ، امان اللہ شاہانی، ملک عطا محمد اترا، دادا قادر داد ، امیر حسن، بابو مشتاق، محمد عتیق دھلوی، شیخ ظہور احمد، محمد خان نیازی، حبیب اللہ نیازی، سید احسان علی شاہ، نذر عباس نقوی، وزارت حسین نقوی، ارشاد حسین عابدی، ماسٹر غلام عباس اور دوسرے بزرگ فرقہ ورانہ منافرت سے آگے ہمالہ سے بلند پہاڑ بن کر کھڑے رہے پھر ان کے بعد کی نسل کے لوگ بشیر احمد بشر، ماسٹر ابراہیم، فیاض صدیقی، رائو حنیف، حنیف غوری، رضا زیدی، رضا کاظم، ترمذی، جعفر زیدی، سعید الحسن، یہ ناچیز اور دوسرے ہر روز اکٹھے ہوتے اور رات کو بھکر کی سڑکیں ان کے قہقہوں سے گونج رہی ہوتیں ۔ اگرکسی کو انکار ہوتو مجھے اعتراض نہیں ہے لیکن میری ذاتی رائے ہے دینیات الگ کرو تحریک باہمی منافرت کی عمارت کی پہلی اینٹ بنی میں نے خود مظفر علی شمشی کا اس کی مخالفت میں خطاب سنا ہے اور ان کا فقرہ تو میری یادداشت سے چمٹا ہوا ہے ’’ یاد رکھو اس طرح سو اد اعظم سے کٹ جائو گے ‘‘ بہر حال یہ تحریک چلی ،کامیاب ہوئی اور پھر تحریک چلانے والوں نے ہی خود اپنے ہاتھوں اسے ماضی کا قصہ بنادیا ایک حسرت آمیر آرزو ہے ٹائم مشین بھکر کو اسکے ماضی میں پہنچا دے، آج کے اکابرین ماضی کے اکابرین کا کردار ادا کرسکیں، اس شہر کی فضا سنی اور شعیہ نوجوانوں کے قہقہوں سے گونجنے لگے، لشکرجھنگوی اور سپاہ محمد بھولی داستان بن جائیں پھرکوئی اسرار خالہ طفیل فاطمہ کیلئے پان لے جائے کسی علی رضا اور مرتضیٰ کے فیڈر میں دودھ لیکرجائے، پھرکوئی احسان علی شاہ اور نذر عباس مسجد قطب شاہ کے نزدیک گزرنے والے جلوس میں زنجیر زنی بند کرادے، پھر کوئی ماسٹر غلام عباس اور حامد شاہ کمزور سنی طلباء لیکر بیٹھا نظر آئے، کیا یہ اب ناممکن ہے ؟ نہیں، بس سوچ کے زاوئیے بدلنے کی ضرورت ہے۔اے کاش ،اے کاش۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024