
قدیم یورپ میں سسلی کے ایک کیتھولک چرچ کی تعمیرکے دوران میں دیواروں پر میورل مصوری (Mural Paiting) کرتے ہوئے اس عہدکے ایک عظیم مصور کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ کلیسا کی نمایاں دیوار پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیاتِ مقدسہ کے تناظرمیں خیراورشرکی دو نمائندہ شخصیات کی تصاویربنائی جائیں،یہ کوئی عام مصور نہیں تھا،اس کے فنی کمالات کا مانی وبہزاد بھی پانی بھرتے تھے۔ کافی سوچ بچارکے بعداس نے فیصلہ کیاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اوران کوچندٹکوں کے عوض مخبری کرکے گرفتار کروانے والے حواری یہودہ اسکریوتی کامصورانہ عکس دیوار پرنقش کردیا جائے۔یہ ”کاتا اورلے دوڑی“والا معاملہ نہ تھا، اس نے بہت غورخوص کیا لیکن اپنے مقصدمیں کامیاب نہ ہوسکا،اسے خیال آیاکیوں نہ پرانے شہرکی گلیوں میں گھوم پھرکرایسے چہرے تلاش کئے جائیں جوخیراورشرکی نمائندگی کرسکیں اورپھران کوسامنے بٹھاکراپنے تصورکی مدد سے عکس گری کی جائے۔ اسی گھماگھمی میں اس نے ایک جگہ چندبچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا،ان بچوں میں سے اس کی توجہ ایک ایسے بچے پرمرکوزہوگئی جس کا چہرہ معصومیت اور پاکیزگی کا مرقع تھا ،وہ دیکھنے میں بالکل فرشتہ لگتاتھا۔اس نے اس گردآلودچہرے والے غریب بچے کو بہلا کراپنے اس پراجیکٹ کا حصہ بننے پرآمادہ کرلیا۔وہ بچہ روزانہ چرچ میں آکرایک خاص اندازمیں،ماڈل بن کر بیٹھ جاتا اور مصور اس کے چہرے کے خدوخال کومثال بناکر تصویربناتارہتا، یوں کچھ ہی عرصے میں مصور کا تخلیق کردہ شاہکار نمونہ بن گیااورعیسیٰ علیہ السلام کی ایک پیاری سی شبیہ دیوارپرابھرآئی۔لوگ دوردرازکے علاقوںسے جوق درجوق اس مصورانہ شاہکارکودیکھنے کے لیے آنے لگے۔اب مسئلہ یہودہ کی تصویرکاتھا،مصور کوتلاشِ بسیارکے باوجود ایسا چہرہ نہ مل سکا جو شرکی نمائندگی کرنے والے یہوداہ کی شخصیت کی عکس گری کرسکے۔سالہا سال کا عرصہ گزرگیا،اب مصور بوڑھا ہوگیاتھا،اس کے ہاتھ کپکپانے لگے تھے۔ اب اسے اس بات کا رنج تھا کہ یہ شاہکارفن پارہ نامکمل رہ گیاتھا،اس کے ذہن میں مختلف وسوسے اورخیالات سراٹھانے لگے تھے۔بہت سے جرائم پیشہ لوگ اس کے پاس آتے اور اپنی خدمات پیش کرتے لیکن ان سب کے چہرے اس کے ذہن میں موجود تصور سے مختلف ہوتے۔اب وہ خاصا مایوس ہوچکاتھا،ایک دن یہی مصور شہرکے مشہور بار میں دوستوں کے ہمراہ اپنا پسندیدہ مشروب پی رہاتھاکہ ایک انتہائی بدتمیزقسم کاشخص لڑکھڑاتے ہوئے بارکے ہال میں داخل ہوا،وہ لمبے لمبے بالوں والا ایک قوی ہیکل آدمی تھا،اندرداخل ہوتے ہی اس نے گنواروں والے اندازمیں ۔۔شراب ،شراب ،شراب کا راگ الاپنا شروع کردیا۔مصور کی جیسے ہی اس پرنگاہ پڑی،وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھا۔ کچھ دیرتک وہ ٹکٹکی باندھ کراس شخص کودیکھتا رہا،اسے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا،خوشی سے اس کی باچھیں کھل گئیں،اسے شرکے نمائندے کے طورپریہودہ اسکریوتی کی پینٹنگ بنانے کے لیے مطلوبہ شخص میسر آگیاتھا۔اس نے چند روپوں کے عوض اس شخص کے ساتھ معاملات طے کیے،اب اس کے ادھورے شاہکارکی تکمیل کاوقت آن پہنچا تھا۔ مطلوبہ شخص مقررکردہ وقت پرماڈل کے طورپرکلیسا میں آکربیٹھ جاتا،مصور اس کودیکھتارہتا ،اور تصویربنتی رہتی۔عکس گری کے عمل میں اس نے محسوس کیا کہ ماڈل کے چہرے پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک تناﺅ آتاجارہاہے جیسے اس کی یادداشت لوٹ آئی ہو ،یوں لگتا تھا جیسے وہ مصور سے کچھ کہنا چاہتا ہے۔جب تصویر مکمل ہوئی تواس نے مصور سے کہا،جناب !آپ نے مجھے پہچانا نہیں ،میں وہی بچہ ہوں جس کوکئی سال پہلے آپ نے اپنے پاس بیٹھا کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر بنائی تھی۔اب مصور کی حالت دیدنی تھی،اللہ جانتا ہے یہ جان کرمصور کے دل پرکیا گزری ہوگی ۔یہ کہانی سن کرمیرے دل پرتوقیامت گزرگئی۔ ذہن میں سوال پیداہوا کہ آخرمعاشرہ عیسیٰ نفس لوگوں کو بیہودہ اسکریوتی کیوں بنادیتا ہے ۔آخراس کاذمہ دار کون ہے،یہ والدین اوراساتذہ کی لاپروائی ہے یا یہ ریاست کافرض ہے کہ اپنے باشندوں کو ایساماحول فراہم کرے کہ وہ ہرزاویے سے معاشرے کے لیے مفیدبن جائیں،ان کی زندگی میں کون سی شخصیت ہوجو چراغ ِ راہ کا کردار اداکرے۔اوراگروہ معاشرے کے لیے مفیدنہ بھی بن سکیں تو کم ازکم مضرت رساں نہ ہوں۔کارزار ِ سیاست ہویا علماءومشائخ کی درسگاہیں،خانقاہی نظام ہویا ہمارے کار ِ معیشت کے شائیلاک ،اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تونہ جانے کتنے یہوداہ اسکریوتی لوبھ اورلالچ کی رالیں ٹپکاتے پھرتے ہیں۔ سب نے خودکوعجیب اندازسے کیموفلاج کررکھاہے،اِن سب کی زندگی کامقصدومحور محض دولت کمانا ہے ،چاہے اس کے عوض اپنی فکری ونظریاتی اثاث ہی کیوں نہ بیچنی پڑ جائے۔ حیرت کے اس مقام پر تو”قومے فروختندوچہ ارزاں فروختند“والی بات بھی ہیچ دکھائی دیتی ہے۔ہمارے ہاں گزشتہ سالوں میں معاشرتی اصول وضوابط ترتیب دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔اگرکسی نہ کسی طرح کچھ ترتیب بن بھی گئی تھی تو اس کے ثمرات کوسمیٹا ہی نہیں جاسکا،افسوس کہ ہمارا مقتدر طبقہ ہویا غریب الغربا لوگ اکثریت کی مثال ایک ایسی قبرکی ہے جوباہرسے تودودھیا رنگ کے سنگ مرمر کی سلوں سے آراستہ ہوتی ہیں لیکن اس کے اندرمردوں کی ہڈیاں اوردیگر نجاستوں سے تعفن پھیلا ہوتا ہے۔چہروں پہ مختلف خول چڑھاکر پھرتے ہوئے ابن الوقت لوگ ہمارے معاشرے کی حدود وقیودکی دیواروں کو یاجوج ماجوج کی طرح نوک ِ زباں سے چاٹتے رہتے ہیں کہ کب موقع ملے اور وہ چند ٹکوں کے عوض سب کچھ ہڑپ کرلیں۔ معلوم نہیں سچ اور جھوٹ میں کیاتفاوت ہے،پہلے کم ازکم لوگوں کے گیٹ اپ کودیکھ کر ان کے مزاج کا کچھ نہ کچھ تعین ہوجاتا تھا لیکن اب ممکن نہیں،اس صورت حال میں کیاکِیا جائے:
خداوندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھرجائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری