میرا جواب ہے نہیں، اور آپ شاید میرے جواب پر حیران ہوئے ہوں گے ،لیکن میں نے یہ جواب زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر دیا ہے۔بھارت نے کشمیر پر قبضہ1947ء میں جما لیا تھا لیکن پاکستان اور بھارت کے درمیان نقل مکانی کا سلسلہ 1951ء تک جاری رہا اور پینسٹھ کی جنگ تک کھلے عام تجارت ہوتی رہی۔ پاک بھارت تجارت میں کبھی کبھار تعطل ضرور آیا لیکن پاکستان کے موقع پرست اور مفاد پرست تاجروں کا جب بھی بس چلا وہ چپکے سے پھر تجارت شروع کردیتے تھے۔ 1999ء میں جب کارگل کی جنگ چھڑی اور دو ایٹمی ملک آمنے سامنے آئے تو پاک بھارت تجارت میں کوئی تعطل واقع نہیں ہو ا ،واہگہ بارڈر پر ہمارے چینی مافیا کے ٹرکوں کی قطاریں بھارت میں مال سپلائی کر رہی تھیں ،اس چینی مافیا کو ذرہ بھر غیرت نہ آئی کہ کارگل میں ہمارے مجاہدوں کا خون بہہ رہا ہے اور ہم ان کے خون کا سودا کرکے اپنی تجوریاں بھر رہے تھے۔نواز شریف کو تو کارگل کی جنگ اتنی بری لگی کہ جیسے آرمی چیف جنرل مشرف نے ان کی کمر میں چھرا گھونپ دیا ہو ،یہی نواز شریف جلا وطن ہو کر جدہ پہنچے تو انہوں نے وہاں ایک اسٹیل مل قائم کی جس میں تمام انجینئرز بھارت سے در آمد کیے گئے تھے۔نواز شریف دور میں ایک ن لیگی پنجاب کے گورنر نے مجھ سے کہا تھا کہ پاکستان میں چینی کے کارخانے کا انجینئر ڈھنگ کا نہیں ملتا اس لیے ہمیں یہ انجینئر انڈیا سے بھرتی کرنے پڑتے ہیں۔ نواز شریف کی بھارت دوستی کا اس سے بڑا مظہر کیا ہوگا کہ وہ بھارتی وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں گئے،انہوں نے کشمیری حریت کانفرنس سے ملنے سے انکار کردیا اور دلی کے قیام میں اپنا سارا وقت بھارت کے کاروباری ٹائیکونز کے ساتھ گزارا ۔مجھے تعجب ہے کہ بلاول کو پانچ اگست کا رونا دھونا یاد ہے مگر اسے کسی نے یہ نہیں بتایا کہ جب اس کی والدہ محترمہ وزیر اعظم بنیں اور راجیو گاندھی سارک کانفرنس کے لیے اسلام آباد آئے تو پی ٹی وی سے کشمیر کے موسم کا حال غائب کردیا گیا ،مری ہائی وے پر سری نگر کا سنگ میل اکھاڑ دیا گیا اور میریئٹ ہوٹل کے سامنے لگا ہوا کشمیر ہائوس کا بورڈ اتار دیا گیا ۔ مجھے ان دونوں بڑی پارٹیوں کی لیڈر شپ کے رویے پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ انہیں اپنی اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔آج بھارت کے ساتھ تجارت کھولنے یا بند کرنے کو وہ پانچ اگست کے ساتھ براہ کرم نہ جوڑیں کیونکہ یہ محض مگر مچھ کے آنسو ہیں ۔
ہانگ کانگ پر چین کا دعویٰ تھا کہ وہ اس کا اٹوٹ انگ ہے لیکن اس نے ہانگ کانگ کے لیے نہ تو کوئی جنگ کی اور نہ اس کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کیا بالآخر ایک پکے ہوئے پھل کی طرح ہانگ کانگ پچاس سال بعد چین کی جھولی میں آگرا ۔سابق سوویت روس اور امریکہ دنیا کی دو سپر پاورز تھیں ،ان کے درمیان عشروں تک سرد جنگ جاری رہی لیکن دونوں نے تجارتی تعلقات ختم نہیں کیے ۔آج چین اور امریکہ کی مخاصمت اپنے عروج پر ہے مگر امریکہ کی در آمدات کا سب سے بڑا شیئر چین کے پاس ہے۔امریکہ اور مسلم دنیا کے تنازعات سے کون آنکھیں بند کر سکتا ہے کیونکہ دنیا کے چپے چپے میں امریکی فوجوں نے مسلمانوں کا خون بہایا مگر مسلم دنیا اور امریکہ کے درمیان تجارتی تعطل واقع نہیں ہوا ۔چین اور جاپان بھی ایک دوسرے کے صدیوں سے حریف چلے آرہے ہیں لیکن کسی نہ کسی سطح پر ان کے درمیان تجارتی رشتے قائم ہیں۔پاکستان اور بھارت کے مابین بد قسمتی سے باہمی اعتماد کی کمی ہے ،بھارت میں پاکستان فوبیا کو ہوا دی جاتی ہے اور پاکستان میں بھارت کو دشمن نمبر ایک سمجھا جاتا ہے ،لیکن دونوں ملک جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے ملحق ہیں اور دونوں کے درمیان تجارتی تعلقات ایک دوسرے کے لیے کم خرچ اور بالا نشین والی بات ہے ۔اگر دونوں ملک اپنی ضرورت کی اشیا باہر سے منگوائیں تو انہیں مہنگی بھی پڑیں گی اور وہی چیزیں اگر یہ ملک ایک دوسرے سے منگوا لیں تو وہ ان کو سستی پڑیں گی۔کبھی دونوں ملک اپنی دشمنیاں مٹا کر تجارتی تعلقات استوار کرلیتے ہیں،کبھی دونوں ملکوں کو اپنی اپنی دشمنیاں یاد آجاتی ہیں اور وہ تجارت سے ہاتھ روک لیتے ہیں۔
مشرقی پاکستان ہمارا اٹوٹ انگ تھا بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ کا بانی اور قرار داد پاکستان پیش کرنے والا ملک تھا ،1971ء میں مشرقی پاکستان الگ ہوا اور بنگلہ دیش بن گیا تو ہم ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ،فطرت کا اصول ہے کہ دوستی اور دشمنی وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے اور یہ مفادات کے تابع ہوتی ہے ۔پچھلے کئی برسوں سے پاکستانی ٹیکسٹائل اپنی ضرورت کا دھاگہ بنگلہ دیش سے درآمد کرتی ہے ،اگرچہ یہ شرم کی بات ہے کہ بنگلہ دیش میں کپاس کا ایک پودا تک نہیں اگتا اور پاکستان میں لاکھوں ایکڑ کپاس سے لہلہا رہے ہیں مگر بنگلہ دیش کے اقتصادی منصوبہ بندی کرنے والوں نے کپاس دوسرے ممالک سے در آمد کی اسے دھاگے کی شکل دی اور پاکستان سمیت ضرورت مند ملکوں کو اس کی برآمد کی،پاکستان کو کپاس کی ضرورت ہو تو یہ وسط ایشیا کی قریب ترین منڈیوں سے بھی دستیاب ہے اور افریقی ممالک سے بھی مل سکتی ہے لیکن اگر ہماری اقتصادی کونسل دھاگہ اور کپاس بھارت سے درآمد کرنے کا فیصلہ کرے تو اس کے پاس ضرور اس کا جواز ہوگا مگر بھارت سے چینی کی درآمد کے فیصلے پر تو سر پیٹنے کا جی چاہتا ہے کیونکہ پاکستان میں درجنوں شوگر ملوں میں چینی کے ڈھیرلگے پڑے ہیں ،اب یہ بات تحقیق طلب ہے کہ شوگر ملیں اپنی مرضی سے مارکیٹ کو سپلائی نہیں دیتیں یا ہماری قومی اقتصادی کونسل ملکی شوگر ملوں کو انتقام کا نشانہ بنانا چاہتی ہے۔اس سوا ل کا جواب تو فریقین کی نیتوں کے اندر جھانک کر ہی مل سکتا ہے مگر نیت کا حال خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا ،ابھی تک کوئی لیبارٹری نیت ٹیسٹ کرنے کا کام نہیں کرتی ۔
ہم نے بھارت کے ساتھ تجارت کرنی ہے تو کان کو دائیں ہاتھ سے بھی پکڑا جاسکتا ہے اور بائیں ہاتھ سے بھی پکڑا جاسکتا ہے ،ویسے بھی ہم اپنی مرضی کے مالک نہیں ہیں کیونکہ ہمارے زیادہ تر فیصلے وائٹ ہائوس سے وابستہ ہیں ،اب اگر وائٹ ہائوس میں نئے امریکی صدر نے جادو کی کوئی چھڑی گھمائی ہے اور ہماری اقتصادی کونسل نے اس کے سگنل پر بھارت سے تجارت کا اجازت نامہ دے دیا ہے ،تو میرا خیال ہے ہم زیادہ دیر تک ہچر مچر نہیں کرسکیں گے۔اگر تو وائٹ ہائوس کا فیصلہ اٹل ہے تو ہم دکھاوے کے لیے شور مچاتے رہیں گے اور بالآخر ہمیں وائٹ ہائوس کے سامنے ناک رگڑنی پڑے گی ۔
مین قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ مشرف دور میں جب آگرہ کے مذاکرات ناکام ہوگئے تھے تو پھر بیک چینل ڈپلومیسی نے کام دکھایا ،وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی نے کنٹرول لائن پر یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا ،سری نگر اور مظفر آباد کے درمیان بس بھی چلی ،کنٹرول لائن پر دو طرفہ تجارت کے لیے راستے بھی کھلے اور دونوں طرف کے بچھڑے ہوئے خاندانوں کواہم ملاقات کے لیے کئی مقامات کا تعین کیا گیا۔مشرف کے وزیر خارجہ خورشید قصوری آج بھی ایک تھیلی لیے پھرتے ہیں جس میں کشمیر کی تقسیم کا ایک متفقہ نقشہ بند ہے ،بھٹو نے تاشقند کی تھیلی کا ڈھونگ رچایا اور مشرف کا یہ وزیر نقشوں کی بند پٹاری بغل میں دبائے بیٹھا ہے ،اس پس منظر میں شاعر کہتا ہے کہ
اب کسے رہنما کرے کوئی
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024