پاکستان کی تاریخ میں عوام دو اداروں سے ہمیشہ ناخوش رہے ہیں۔ پولیس کبھی عوام کے اعتماد پر پوری نہیں اُتر سکی حالانکہ اس میں کئی بار مختلف نوعیت کی تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں۔ اربوں روپے کے فنڈز بھی مختص کیے گئے۔ پولیس کی افسوسناک حد تک خراب کارکردگی کی بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ پاکستان کے سیاستدان پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ عدالتی نظام بھی پاکستان کے عوام کی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکا۔ سستا اور فوری انصاف ایک خواب ہی رہا ہے، جس کی تعبیر کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے۔ عدالتی تاریخ میں کئی بار ایسے ٹھوس شواہد سامنے آتے رہے ہیں جس سے عدالت کی غیر تسلی بخش کارکردگی بے نقاب ہوتی رہی ہے۔ پاکستان کی عدلیہ 74 سالوں میں یہ فیصلہ بھی نہیں کر پائی کہ مقدمات کن اصولوں کی بنیاد پر عدالت میں سماعت کیلئے پیش ہونے چاہئیں اور مقدمہ کتنے عرصے میں مکمل ہونا چاہیے۔ نامور بیرسٹر عابد حسن منٹو نے کم و بیش 20 سال قبل زرعی اصلاحات کے سلسلے میں شریعت بنچ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس کی آج تک سماعت نہیں ہو سکی۔ سانحہ ماڈل میں قتل عام ساری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر ابھی تک ذمہ داران کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا۔ حال ہی میں ایک قاتل کی 28 سال بعد جیل سے رہائی نے عدالتی نظام پر سنگین نوعیت کے سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ سپریم کورٹ نے قتل کے اس مقدمے میں فیصلہ دیا ہے کہ جب 1993ء میں قتل کا ارتکاب کیا گیا، اس وقت ملزم نابالغ تھا اور قوانین کیمطابق اس کو سزائے موت نہیں دی جاسکتی تھی۔ یہ مقدمہ justice delayed, justice deniedکی افسوسناک مثال ہے۔ قتل کا ملزم جس کو 28 سال کے بعد رہائی نصیب ہوئی ہے، اس کو 1993ء میں ضلع وہاڑی میں قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس کا مقدمہ پانچ سال تک چلتا رہا۔
ایڈیشنل سیشن جج نے 1998ء میں سزائے موت سُنا دی۔اس سزا کے خلاف ملزم کی اپیل ہائیکورٹ میں تین سال تک زیر سماعت رہی اور 2001 ء میں خارج کر دی گئی۔ اس ملزم نے لاہور ہائیکورٹ سے اپیل خارج ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی اور 2007ء میں یہ اپیل بھی خارج کر دی گئی۔ صدر پاکستان نے اس ملزم کی اپیل پر نظرثانی کرتے ہوئے اسکی موت کی سزا ختم کر دی اور اسے عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ مذکورہ ملزم ناقص اور ناکارہ عدالتی نظام کی وجہ سے جیل میں پڑا ذہنی اذیت برداشت کرتا رہا۔ اس نے پنجاب حکومت کے ہوم سیکرٹری سے اپیل کی کہ اسکی سزائے موت کو ختم کر کے عمر قید میں تبدیل کر دیا جائے کیونکہ جب یہ قتل ہوا اس وقت وہ نابالغ تھا۔ جیسا کہ ہماری بیوروکریسی کی ذہنیت ہے ہوم سیکرٹری نے اس فائل کو طویل عرصہ تک دبائے رکھا۔ ملزم نے اپنا حق لینے کے لیے 2009ء میں وہاڑی کے سیشن جج کو ایک اپیل دائر کی جو مسترد کر دی گئی۔ لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج نے 2015ء میں ہوم سیکرٹری کو ہدایت جاری کی کہ وہ ملزم کی پٹیشن پر فیصلہ کرے ۔ ہوم سیکرٹری نے لاہور ہائیکورٹ کے جج کو رپورٹ پیش کی کہ بالغ نوجوان کے قانون کے سلسلے میں ایک اپیل 2003ء سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ ملزم نے ایک بار پھر سیشن جج کے پاس درخواست دائرکی کی اسکے ساتھ انصاف کیا جائے جس میں اس کو یہ جواب دیا گیا کیونکہ اس کی سزا کنفرم کر دی گئی ہے ،لہٰذا بلوغت کے قانون کے مطابق درخواست کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ ملزم نے ایک بار پھر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور سپریم کورٹ نے سیشن جج کا آرڈر منسوخ کردیا کیوں کہ ایک ایسا دستاویزی ثبوت پیش کیا گیا تھا جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ جب وقوعہ ہوا تو ملزم اس وقت بالغ نہیں تھا لہٰذا قوانین کے مطابق وہ انصاف کا حقدار تھا۔ ملزم تین دہائیاں جیل میں گزارنے کے بعد قوانین کے مطابق اپنا حق حاصل کر سکا۔ اس طرح کی سینکڑوں مثالیں عدالتی تاریخ کی فائلوں میں موجود ہیں۔ اسکے باوجود سیاستدان جج اور وکلا ٹس سے مس ہونے کیلئے تیار نہیں اور ان میں اتنا خدا کا خوف نہیں کہ وہ عدالتی نظام کو بہتر بنانے کیلئے جدوجہد کریں۔ پاکستان کے نیک نام سابق پولیس افسر محترم طارق کھوسہ جو ایف آئی اے کے ڈی جی بھی رہے ہیں، اپنے زندگی بھر کے تجربے اور مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جب تک پاکستان میں آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی نہیں بنایا جاتا عوام کو کبھی انصاف نہیں مل سکتا اور نہ ہی گورننس کو درست طور پر چلایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین اور قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنانا اور عوام میں یہ اعتماد اور تاثر پیدا کرنا کہ جو بھی قانون کی گرفت میں آئیگا وہ قانون سے کسی صورت بچ نہیں سکے گا۔ یہ ماحول پیدا کرنے کے بعد ہی پاکستان کے عوام کو بہتر حکمرانی دی جاسکتی ہے۔
جب ہم اسلام آباد لاہور موٹروے پر سفر کرتے ہیں تو ٹریفک قوانین کے مطابق بڑے محتاط رہتے ہیں کیوں کہ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ اگر ہم نے قانون توڑا تو ہم جرمانے سے نہیں بچ سکتے۔ یہ یقین اور خوف ہی ہمیں قوانین پر عملدرآمد پر مجبور کرتا ہے اور جب ہم لاہور میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارا ڈر اور خوف ختم ہو جاتا ہے اور ہم ٹریفک قوانین کی کوئی پروا نہیں کرتے۔ دنیا کے 126 ممالک میں پاکستان عدل وانصاف کے لحاظ سے 120 ویں نمبر پر ہے۔ یعنی 119 ممالک کا عدالتی نظام پاکستان سے بہتر ہے۔ عدالتی نظام کی مسلسل ناکامی سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں کوئی متبادل نظام وضع کرنا پڑے گا جو عوام کو انصاف کی فراہمی یقینی بنا سکے جو فوری اور سستا بھی ہو۔ محب الوطن ماہرین میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ جب تک پولیس اور عدالتی نظام کو عوام دوست نہیں بنایا جاتا، پاکستان میں امن و امان کے قیام اور فوری انصاف کے خواب کو پورا نہیں کیا جا سکے گا۔ عدالتوں کے جج اور وکلا اگر عدلیہ کے ماضی کے آئینے میں اپنی کارکردگی کا جائزہ لیں تو شاید انکے دل میں خوف خدا پیدا ہو اور وہ عدالتی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لانے پر آمادہ ہو جائیں۔گورننس کے بارے میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اگر پاکستان کے جج مثالی بن جائیں تو پاکستان بھی ایک مثالی ریاست بن سکتا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024