آئین پاکستان اور اسلامی طرز زندگی
محترم جسٹس(ر) فضل کریم آئینی اور عدالتی تاریخ کے ماہر سکالر ہیں۔ دنیا کے دساتیر اور کلیدی عدالتی فیصلوں پر انکی گہری نظر ہے۔ انہوں نے اپنی عالمی رینکنگ کی کتاب "Judicial Review of Public Actions" میں ”اسلامی طرز زندگی“ کے بارے میں ایک باب شامل کیا ہے جو آئین پاکستان کے مختلف آرٹیکلز، عدالتی فیصلوں اور عالمی آئینی ماہرین کے مستند حوالوں پر مشتمل ہے۔ جسٹس(ر) فضل کریم اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ آئین کے باب نمبر 2میں حکمت عملی کے بنیادی اُصول بیان کیے گئے ہیں جس کا آرٹیکل نمبر 29تقاضا کرتا ہے کہ ریاست کا ہر شعبہ اور مجاز اتھارٹی ان اُصولوں پر عمل کرے۔ آئین کے آرٹیکل نمبر 2، نمبر 3، نمبر 31، نمبر 37 اور نمبر 38کو ملا کر پڑھا جائے تو ریاست کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ اسلامی طرز زندگی کو فروغ دے اور اسلام کے بنیادی اُصولوں کے مطابق سماجی انصاف کو یقینی بنائے اور سماجی برائیوں کا خاتمہ کرے۔ جہالت ختم کی جائے فوری اور سستا انصاف فراہم کیا جائے۔ بچوں اور خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ استحصال کی ہر صورت کو ختم کرکے فلاحی ریاست تشکیل دی جائے جو ہر شہری کے معیار زندگی میں اضافہ کرے۔
جسٹس صاحب نے اپنی کتاب میں اہم نکتہ اُٹھایا ہے کہ مغرب کا سوشل ویلفیئر سسٹم عوام کی مالی اعانت کو چیرٹی (بھیک) کا نام دیتا ہے جبکہ اسلام کا فلاحی نظام مالی امداد کو رائٹ(حق) قراردیتا ہے۔ ”اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے ہر سائل اور محروم کیلئے ”70:25“ اور انکے مال میں مانگنے والوں اور محروم لوگوں کا حق ہوتا ہے“51:19 جسٹس صاحب نے آئین کے آرٹیکل نمبر 3 ”مملکت استحصال کی تمام اقسام کا خاتمہ اور اسکے بنیادی اُصول کی تدریجی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اسکی اہلیت کے مطابق کام لیا جائیگا اور ہر کسی کو اسکے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائیگا“ کی مستند اور معتبر حوالوں کے ساتھ دلچسپ تشریح کی ہے۔ انہوں نے پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ایک فیصلے پی ایل ڈی 2015ءسپریم کورٹ 401کا حوالہ دیا ہے جس میں تحریر کیا گیا ہے کہ آئین پاکستان میں اسلامی اُصولوں اور سوشلسٹ نظریے کا اشتراک پایا جاتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل نمبر 3روس کے آئین کے آرٹیکل نمبر 12سے ماخوذ ہے جو کارل مارکس کے نظریے پر مبنی ہے۔ کتاب کے مطابق ہندوستان کے جسٹس وی آر کرشنا نے پاکستانی آئین کے آرٹیکل نمبر 3کو ”آئین پاکستان کا ضمیر“ قرار دیا ہے۔ جسٹس کرشنا کے مطابق بائبل میں درج ہے ”جو کام نہیں کرتا اسے کھانا نہیں چاہیے“۔ راقم شاہد ہے کہ 1970ءکے انتخابات میں ”سوشلزم آوے ای آوے، جیہڑا واہوے اوہی کھاوے“ کا نعرہ بڑا مقبول تھا۔ پی پی پی کے بنیادی نعرے ”سوشلزم ہماری معیشت ہے“ کی روشنی میں آئین میں آرٹیکل نمبر 3شامل کیا گیا۔ جسٹس (ر) فضل کریم کی رائے کے مطابق کارمارکس کا تصور اس کا ذاتی نہیں تھا بلکہ تاریخی دانش کا ارتقاءتھا۔
محترم جسٹس (ر) فضل کریم نے اپنی کتاب میں جسٹس افضل ظلہ کے ایک فیصلے (پی ایل ڈی 1976 لاہور ، 930,981) کے اقتباسات شامل کیے ہیں جس میں ”مذہب“ اور ”دین“ کے الفاظ کی تشریح کی گئی ہے۔ فیصلے میں تحریر ہے آئین میں شامل لفظ "Religion" یعنی مذہب لفظ دین کا احاطہ نہیں کرتا جو قرآن کی مختلف آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ مذہب کا لفظ محدود معنوں میں استعمال ہوتا ہے جبکہ دین کا لفظ اسلامی طرز زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ آئین پاکستان کا تقاضہ ہے کہ ریاست کے شہریوں کی انفرادی زندگی اور مختلف اداروں و شعبوں میں قرآن اور سنت کی روح نظر آئے۔ فرد اور قوم کا طرز زندگی اسلامی ہو۔ جسٹس صاحب کی ”جوڈیشل ریویو“ پر کتاب مستند اور معتبر تاریخی دستاویز ہے جس سے قانون کے طلبہ استفادہ کرسکتے ہیں۔ آئین ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدہ ہوتا ہے۔ جو ریاست اور حکومت اپنے آئین پر صدق دل اور خلوص نیت سے عملدرآمد کرتی ہے وہ ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن رہتی ہے۔ آئین سے انحراف کرنے والی ریاستیں ابتری، انتشار اور عدم استحکام کا شکار رہتی ہیں۔ آئین پاکستان نے ریاست کو خوش اسلوبی سے چلانے کیلئے بنیادی اُصول طے کردئیے ہیں اور آئین کی منشا یہ ہے کہ پاکستان کا سماج قرآن اور سنت کے سنہری آفاقی اُصولوں کا عکاس ہو۔ آئین پاکستان کے دیباچے میں درج ہے۔
”چونکہ پاکستان کے جمہور کی منشا ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب کردہ نمائندہ کے ذریعے استعمال کریگی جس میں جمہورت، آزادی، مساوات، رواداری اور عدل عمرانی کے اُصولوں پر جس طرح اسلام نے انکی تشریح کی ہے، پوری طرح عمل کیا جائےگا۔ جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائیگی اور ان حقوق میں قانون اور اخلاق عامہ کے تابع حیثیت اور مواقع میں مساوات، قانون کی نظر میں برابری، معاشرتی، معاشی اور سیاسی انصاف اور خیال، اظہار خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہوگی۔ جس میں اقلیتوں اور پسماندہ اور پست طبقوں کے جائز مفادات کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائیگا، جس میں عدلیہ کی آزادی پوری طرح محفوظ ہوگی“۔
آئین کا آرٹیکل نمبر 2اعلان کرتا ہے ”اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہوگا“ جس کا تقاضہ ہے کہ ایک مسلم سماج وجود میں آئے۔ آئین کا آرٹیکل نمبر 2الف قرار داد مقاصد کو آئین کا مستقل حصہ قراردیتا ہے جس میں درج ہے ۔
”اللہ تعالیٰ کل کائنات کا بلاشرکت غیرے حاکم مطلق ہے اور اس نے جمہور کی وساطت سے مملکت پاکستان کو اختیار حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کےلئے نیابتاََ عطا فرمائے ہیں چونکہ یہ اختیار حکمرانی ایک مقدس امانت ہے جس کی رو سے مملکت جملہ حقوق و اختیارات حکمرانی جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے اسے استعمال کریگی جس کی رو سے اُصول جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری، عدل اور حکمرانی کو جس طرح اسلام نے انکی تشریح کی ہے پورے طور پر ملحوظ رکھا جائےگا جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائیگا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو اسلامی تعلیمات کے مطابق جو قرآن و سنت میں متعین ہیں تربیت دے سکیں جس کی رو سے اس امر کا قرار واقعی انتظام کیا جائے کہ اقلیتیں آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی عقیدوں پر قائم رہ سکیں اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دے سکیں جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے اور ان حقوق میں قانون اور اخلاق عامہ کے ماتحت مساوات قانون کی نظر میں برابری، عمرانی، اقتصادی اور سیاسی عدل، اظہار خیال، عقیدہ، دین، عبادات اور ارتباط کی آزادی شامل ہے۔جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا انتظام کیا جائےگا جس کی رو سے نظام عدل کی آزادی کامل طور پر محفوظ ہوگی تاکہ پاکستان کے عوام فلاح و خوش حالی کی زندگی بسر کرسکیں وہ اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کرسکیں اور امن عالم کے قیام اور بنی نوع انسان کی ترقی و بہبود میں اضافہ کرسکیں“۔
آئین کے آرٹیکل نمبر 31میں اسلامی طرز زندگی کو انفرادی اور اجتماعی طور پر یقینی بنانے کا عہد کیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل نمبر 38 میں درج ہے۔ ”عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرکے دولت اور وسائل پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفاد عامہ کو نقصان پہنچے اور آجر و ماجور اور زمیندار و مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دیکر بلا لحاظ جنس، ذات، مذہب یا نسل، عوام کی فلاح و بہبود کے حصول کی کوشش کرےگی“۔ پاکستان کے سیاستدان، مذہبی رہنما، بیوروکریٹ، جرنیل، جج اور صحافی ریاست کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر آئین کی منشا کے مطابق چلانے کے لیے کردار ادا کریں۔ افسوس پاکستان کا آئین تشکیل دینے والی پارلیمنٹ نے خود ہی اس پر عمل نہ کیا اور اس طرح اپنی بالادستی بھی ختم کرلی۔ اگر پارلیمنٹ اپنے ہی بنائے ہوئے آئین پر پہرہ دیتی اور ریاستی اداروں کو آئین کے مطابق چلاتی تو آج پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر موجودہ تشویشناک صورتحال کا شکار نہ ہوتا۔ آئین کی منشاءاور قرآن و سنت کے پیغام کے مطابق ہمیں اپنی ریاست کو اسلام کے سنہری اور آفاقی اُصولوں کے مطابق چلانا ہوگا۔