”سیاسی جماعتیں کل تک بتائیں منظم دھاندلی ہوئی تو کس نے کرائی“ جوڈیشل کمشن کا سوالنامہ
اسلام آباد (نوائے وقت نیوز + بی بی سی + آن لائن) 2013ءکے انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن نے ایک سوالنامہ جاری کیا ہے جس میں سیاسی جماعتوں سے پوچھا گیا ہے کیا یہ انتخابات منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تھے؟ سوالنامے میں سیاسی جماعتوں سے یہ بھی پوچھا گیا ہے یہ انتخابات شفاف نہیں تھے تو اس کی کیا وجہ ہے؟ اور کیا ان انتخابات میں منظم دھاندلی کرائی گئی اور یہ منصوبہ بنایا گیا تو اس کے منصوبہ ساز کون تھے؟۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی جوڈیشل کمیشن نے 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات سے متعلق اپنی سماعت شروع کی۔ کمشن کی طرف سے دیے جانے والے سوالنامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کیا دھاندلی صرف قومی اسمبلی کے حلقوں میں ہوئی ہے یا اس میں صوبائی اسمبلی کے حلقے بھی شامل ہیں؟ سوالنامے میں سیاسی جماعتوں سے یہ بھی پوچھا گیا ہے کیا منظم دھاندلی کسی ایک صوبے کے چند مخصوص حلقوں میں ہوئی یا چاروں صوبوں میں ہوئی؟۔ جوڈیشل کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں سے کہا ہے وہ کل تک ان سوالات سے متعلق شواہد کمیشن کے سامنے جمع کرا دیں۔ سماعت کے دوران کمیشن کے سربراہ کا کہنا تھا ابھی تک کچھ جماعتوں نے سیاق و سباق سے ہٹ کر عمومی شواہد کمیشن کے سامنے جمع کرائے ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی ( عوامی) کے وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا الیکشن کمیشن کے موجودہ سیکرٹری یعقوب بابر بھی دھاندلی میں ملوث تھے۔ انہوں نے کہا یعقوب بابر اس وقت بلوچستان کے چیف سیکرٹری کے عہدے پر تعینات تھے۔ بی این پی کے وکیل نے الزام عائد کیا کہ انہوں نے اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا اور رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں دھاندلی کرائی۔ شاہ خاور کا کہنا تھا کہ کمیشن اس ضمن میں الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرے اور ان سے اس بارے میں وضاحت طلب کرے جس پر کمیشن نے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ا±ن سے دو روز میں جواب طلب کرلیا ہے۔ آن لائن کے مطابق الیکشن کمشن نے دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کے روبرو درخواست میں کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن اعلیٰ عدلیہ میں انتخابی دھاندلی کے بارے میں زیر التواءبعض حلقوں کے مقدمات کی سماعت نہ کرے، وہ ایسا کرے گا تو وہ مقدمات پر اثر انداز ہو سکتا ہے جس پر کمیشن کا کہنا تھا کہ ہم نے عمومی نوعیت اور دھاندلی سے متعلقہ معاملات کا جائزہ لینا ہے ان معاملات میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی‘ فارم نمبر 14‘ 15 آر اوز اور ڈی آر اوز کی تعیناتی اور اثر انداز ہونے کے معاملات شامل ہیں۔ ویسے بھی اب تک جتنی بھی دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں وہ سب سفارشات ہیں۔ نوائے وقت نیوز کے مطابق تحریری سوالنامے میں کہا گیا ہے آپ الزام عائد کرتے ہیں کہ 2103ءکے انتخابات پر ایک منصوبے کے تحت کوئی اثر انداز ہوا؟ ایسا ہے تو یہ بتائیں یہ منصوبہ کس نے بنایا؟ آپ کے پاس الزام کے حق میں کیا شواہد ہیں؟ منصوبہ کیا تھا؟ کس نے کس طرح عملدرآمد کیا؟ منظم دھاندلی صرف قومی اسمبلی کے انتخابات میں ہوئی یا صوبائی اسمبلیوں میں بھی ایسا ہوا؟ یہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں ہوا تو کیا چاروں صوبوں کو شامل کیا جائے یا کسی مخصوص صوبے کو۔ چیف جسٹس نے کہا کچھ جماعتوں نے ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق دستاویزات جمع نہیں کرائیں زیادہ تر دستاویزات معمولی نوعیت کی ہیں۔ کمشن نے سی او آر میں رہنے کیلئے ایک سوال نامہ تیار کیا ہے۔ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے وکیل شاہد حامد اور تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ میں تلخ کلامی ہوئی، کمشن کے سربراہ چیف جسٹس پاکستان ناصرالملک نے وکلاءکو تلخ کلامی سے روکدیا، چیف جسٹس نے کہا بعض ریٹرننگ افسران کو الیکشن کمشن کی منظوری کے بغیر تبدیل کیا گیا۔ ریٹرننگ افسران کی تبدیلی الیکشن کمشن کے علم میں ہونی چاہیے تھی۔ الیکشن کمشن کی جانب سے سلمان اکرم راجہ کمشن کے روبرو پیش ہوئے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا فارم 14اور انتخابی عذرداری سے متعلق ٹربیونل فیصلے دے چکے ہیں۔ الیکشن ٹربیونل نے جن حلقوں سے متعلق فیصلے سنائے ان کا ریکارڈ پیش کیا جاسکتا ہے۔نمائندہ نوائے وقت کے مطابق دوران سماعت مسلم لیگ (ن) نے دھاندلی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسکو توہین عدالت کے مترادف قرار دیا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا بعض انتخابی حلقوں میں پولنگ کے آخری روز پولنگ سٹیشنز تبدیل کئے گئے تھے ،اس کا کیا جواز ہے؟ چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے سیاسی جماعتوں کی جانب سے جمع کرائی گئی اکثر دستاویزات عمومی نوعیت کی ہیں۔ انہوںنے ہدایت کی درخواست گزار الزامات کے حوالہ سے ٹھوس شواہد پیش کریں ، عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا ان کے موکل نے 76 حلقوں میں دھاندلی سے متعلق مواد جمع کرا دیا ہے جس میں سے 45حلقے قومی اسمبلی جبکہ باقی صوبائی اسمبلیوں کے ہیں ،جبکہ نادرا کی رپورٹ بھی آچکی ہے۔انہوںنے استدعا کی اس ریکارڈ کا جائزہ لینے کیلئے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے،جس پر چیف جسٹس نے کہا جو جماعت الزام عائد کرتی ہے اسے ٹھوس ثبوت بھی پیش کرنے چاہئیں۔ مسلم لیگ (ن) کے وکیل شاہد حامد نے کہا عوام کی رائے کو تبدیل کرنا آئین سے انحراف کے مترادف ہے۔ ق لیگ نے درخواست میں کسی ادارے اور شخصیت کو نہیں بخشا یہاں تک کہ عدلیہ کی آزادی پر بھی حملہ کیا گیا۔ آن لائن کے مطابق جوڈیشل کمشن نے دھاندلی کی تحقیقات کیلئے سماعت کا شیڈول تبدیل کردیا۔ بدھ کے روز سماعت ایک بجے دن کی بجائے ساڑھے 11 بجے سپریم کورٹ میں ہوگی۔ (ق) لیگ کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کی استدعا کردی۔ اعتزاز احسن نے پھر حلقوں کے تھیلے کھولنے، فارم 14 سمیت ووٹوں کا جائزہ لینے کی استدعا کی۔
جوڈیشل کمشن