مکرمی! نوائے وقت 23 اپریل کی اشاعت میں عمر فاروقی کی تحریر، سراج الحق اور حلقہ 246 پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ موصوف نے جماعت اسلامی اور اس کے امیر سراج الحق کے خلاف یک طرفہ طور پر اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے ہوئے، سراج الحق کو دلائی لامہ کے مماثل قرار دیا ہے۔ کراچی کی خونی لسانی تنظیم اور اس کے سربراہ الطاف حسین کے بارے میں تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے، الطاف حسین کو معصوم ثابت کرنے کی سعی نامشکور کی ہے اور ’’مٹی پائو‘‘ کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے پاکستانی عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ حکیم محمد سعید شہید، ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ کے ایڈیٹر محمد صلاح الدین شہید، محترمہ پروفیسر زہرہ شاہد شہید، شاعر رئیس امروہوی، ڈاکٹر عمران فاروق، کس کس مقتول کا نام لیا جائے۔ ان مظلوموں کے خون ناحق سے ہاتھ رنگنے والے قاتلوں کے سربراہ کی سفاکی کے خلاف اگر سراج الحق بے باکی اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے قاتل نہ کہیں تو کیا کہیں۔ ماضی میں عروس البلاد کہلانے والے شہر بے مثال کراچی کی گلی گلی اور تقریباً ہر آبادی مقتولوں کے خون سے رنگین ہے۔موصوف نے تحفظ پاکستان کے لئے سابقہ مشرقی پاکستان، (موجودہ بنگلہ دیش) میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے ’’البدر‘‘ اور ’’الشمس‘‘ کے شہداء پر تنقید کرنے کی کوشش میں چاند پر تھوکتے ہوئے اپنے ہی منہ کو آلودہ کیاہے۔ مجیب، بھٹو، الطاف وغیرہ پرجماعت اسلامی کی نظریاتی تنقید کا ذکر ہوا ہے۔ 1970ء کی دہائی کے ذکر تک کھینچ لے گئے ہے۔ 1970ء کی دہائی میں اگر جماعت اسلامی یکتا و تنہا سامنے نہ آتی۔ تو خدانخواستہ آج پاکستان بھی بنگلہ دیش کی طرح بھارت یا روس کی طفیلی اور کٹھ پتلی ریاست بن چکا ہوتا۔ موصوف عمر فاروقی صاحب سے مختصر طور پر ہم یہی عرض کرسکتے ہیں کہ لفاظی اور خلط مبحث سے پاکستانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش نہ کریں کہ ’’نوائے وقت‘‘ کو صرف عام قارئین ہی نہیں بلکہ تحریک پاکستان اور تاریخ پاکستان سے آگاہی رکھنے والے لوگ بھی پڑھتے ہیں۔(پروفیسر محمد اسلم اعوان)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024