قارئین انسانی زندگی کس قدر عارضی اور بے اعتباری ہے یا کہ یہ دنیا کس قدر نا قدر شناس اور بے فیض ہے اس بارے میں بہت کم لوگ سوچتے ہیں اور شاید اس لئے بھی نہیں سوچتے کہ زندگی اور موت انتہائی گنجلک عنوان ہیں مجھ سے ایک بار انٹرویو کے دوران یہ سوال کیا گیا کہ زندگی کیا ہے؟ میں نے کہا محض چارہ کھا کر زندہ رہا جائے تو جانور پن ہے، انسانیت کیلئے ہو تو مقدس فریضہ اور اگر عارضی قیام سمجھا جائے تو موت ہے اور یہ موت نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم زندگی کے نام پر موت گزار رہے ہیں؟ زندگی،، جو کھنکتی اور بجتی مٹی سے بنے ہوئے انسانوں کو خوبصورت روشنیوں، رنگینیوں اور دلچسپیوں اور خوشیوں میں لپیٹ کر پل پل موت کی طرف لئے چل رہی ہے اور انہیں اپنے اندھے جادو میں اس طرح باندھ رکھا ہے کہ وہ ساری زندگی صرف زندگی ہی کی باتیں کرتا ہے، لمبے لمبے منصوبے گھڑتا ہے، مال و عیال کے جال میں پھنسا ہوا ہے اور اسے اب تک یہ سوچنے کی بھی فرصت نہیں ملی کہ …؎
’’موت کا ذائقہ چکھنے کے لئے
چند لمحوں کو ذرا مر دیکھوں‘‘
ہم نہیں سمجھتے کہ آج کے دیدہ دلیر انسان کو موت کا ذائقہ چکھنے کیلئے ذرا دیر کو مر رہنے کی بھی ضرورت ہے اس لئے کہ اس نے اپنی موجودہ عارضی زندگی کو مستقل بنیادوں پر گزارنے اور موت کے بعد کی زندگی کو عارضی بنیادوں پر DEAL کرنے کیلئے اپنے ارد گرد خود فریبی کا ایسا خوبصورت جال بن رکھا ہے جس سے باہر قدم رکھنے کی اسے فرصت ہے نہ خواہش ہے، وہ آخرت کے لئے اتنی بھی تیاری نہیں کر رہا ہے جتنی کہ بازار سے سودا لانے کیلئے خریدار کرتا ہے۔ جس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ زادِ راہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ موت کے وجود ہی سے منکر ہو گیا ہے اور یوم حساب کیلئے کسی بھی قسم کا تصور نہ رکھنے کی وجہ سے سدھرنے کے بجائے براہ راست خوف خدا سے بے خوف ہو گیا ہے۔ اور دانائی کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا خوف ہے (القرآن)
انسان کو اس وقت سے پناہ مانگی چاہئے جب خدانخواستہ زندگی اس کا کیا دھرا اسے خود نہ لوٹائے بلکہ حساب کتاب کا چارج براہ راست رب العالمین سنبھال لیں اور قہر کی زبان میں سے اس سے پوچھیں کہ ابتک تم نے اسکی عطا کردہ زندگی کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ یا کیا سلوک کرنا چاہئے تھا؟ حقیقت یہ ہے قارئین کہ زندگی ہمیں صرف عیاشی کیلئے یا عطیہ کے طور پر نہیں ملی بلکہ امانت کے طور پر ملی ہے جس کے ایک ایک پل کا ہم نے انتہائی ایمانداری کے ساتھ حساب چکانا ہے اس لحاظ سے وہی بزدل لوگ ہی اصل میں بہادر اور سمجھدار ہیں جو دنیا کا حساب دنیا ہی میں برابر رکھتے ہیں اور اس سودے کو روز قیامت پر نہیں اٹھا رکھتے۔ ہمارے اکلوتے بھائی صاحب جن کی آج برسی ہے کبھی انہی لوگوں میں سے تھے جنہوں نے دنیا کا حساب دنیا ہی میں برابر رکھا اور اپنے حساب کو روز قیامت کی تول میں ڈالنے کو نہ رکھا آج ان کا ذکر کرتے ہوئے گو کہ ہمارے قلم اور کاغذ کے درمیان آنسوئوں کا ایک سمندر حائل ہے لیکن یادوں پر کون پابندی لگاسکتا ہے۔ ان کا انتقال ہوا تو لمحہ بھر کو لگا وقت ٹھہر گیا ہے۔ موت مجھے چھو کر گزر گئی، زندگی پرسے اعتبار اٹھ گیا، سارے خواب اندھے ہوئے، رشتوں رابطوں سے ہٹ کر زندگی کی کم مائیگی اور ناپائیداری کا عجیب سا بے درد احساس دل و دماغ کو گھیرے میں لے کر نچوڑتا رہا، وفات سے دو دن پہلے پوری طرح چاق و چوبند میرے پاس آئے۔ اگلے روز دوبارہ آنے کا وعدہ کر گئے لیکن پھر یوں آئے کہ ان کا ایسا آنا تو میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ آنے کے کئی اور طریقے بھی تو ہوسکتے تھے؟ جانے سے پہلے گہری نیند سوئے میں نے پوچھا اتنی گاڑھی اور گوڑھی نیند؟ کہا یہ نیند نہیں تھی اس سے بھی آگے کی کوئی چیز تھی جسے موت سے ملنا جلنا کہہ سکتی ہو۔ پھر زندگی کے بارے میں بات ہوئی تو فرمایا میرا کھیل ختم ہونے کو ہے لیکن ’’ادھر‘‘ جانے سے پہلے ’’ادھر‘‘ ضرور آئوںگا حسب معمول صبح تک ہم دونوں کی لمبی روحانی نشست لگے گی روشن کتاب کی بات کریں گے۔ دونوں زندگیوں پر بحث ہوگی۔ وقت پر قبضہ کرنے کو گھڑیاں بند کردینگے۔ کلاک کا منہ دیوار کی طرف پھیر دینگے۔ رات کو جاتا اور صبح کو آتا دیکھیں گے اور اس بار تمہیں اپنا فارسی کلام سنائوںگا۔ کیا یہ بات بہت بڑی بات نہیں کہ عمر میں 20 سال کے تفاوت کے باوجود ہم دونوں بہن بھائی کی روحانی طور پر سر آپس میں ملی ہوئی ہے۔ اور ہماری دانش متصادم نہیں ہے، خوش شکل و خوش لباس اور اعلیٰ خانوادہ و سردار زادہ ہونا انکے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا کہتے تھے لفافوں کی نہیں چٹھی کی بات کیا کرو، شناختی چہروں اور لباسوں کی نہیں پہچان پیٹھ کی ہوتی ہے اور میں اپنا خاندانی پس منظر جانتا ہوں اسی طرح ہزاروں اشعار کہے، کتابیں لکھیں لیکن شائع کرانے کو کہا تو شہرت کو دنیا داری کہہ کر چپ ہو جاتے تھے اور آج ان کی چپ کی کیا کیا بات کروں؟ وہ اگلے روز سچ مچ میرے پاس آئے مگر تب تک میرے گھر کی گھڑیوں پر وقت تھم چکا تھا۔ کلاک کا منہ دیوار کی طرف مڑا رہا۔ وہ موت سے بھی پرے والی کسی گہری نیند سے جاگ کر آخری گہری نیند سوگیا۔ اسکا کھیل اسکے کہنے کے مطابق ختم ہو چکا تھا مگر زندگی اور موت میرے ساتھ دوہرا کھیل کھیل رہی ہے۔ میں جوپہلے ہی زندگی کو موت کے معنوں میں برت رہی ہوں، ترک دنیا کاسا رویہ اپنائے ہوئے ہوں، سوچتی ہوں، اس مہا دانشور اور روحانی طور پر حد درجہ بیدار شخص کے بعد میں کس کے ساتھ زندگی اور موت پر بحث کرونگی؟ کون آکر مجھے تسلی دیگا کہ، چپ ہو جائو اب کوئی بات کرنے کا فائدہ نہیں ہے کیا تم نہیں جانتی ہو کہ ہم سب یہاں عارضی طور پر آئے ہوئے ہیں؟ اور یہ کہ: اور ہر جان کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ (القرآن)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38