کوئی نہیں جانتا کہ موت اس کے کندھوں پر سوار ہے۔ موت زندگی کی وہ جنگ ہے جس سے کوئی آج تک نہیں جیت سکا۔ نیپال میں آنے والے زلزلے نے 2000 سے زائد ہنستے بستے انسانوںکو آناً فاناً لاشیں بنا دیا۔ یہ حقیقت بھی زلزلہ کے سامنے لرز کر رہ گئی کہ کوہ ہمالیہ بھی دُھنکی ہوئی روئی کی مانند اُڑ کر ریزہ ریزہ ہو سکتا ہے۔
مائونٹ ایورسٹ پر 20 کوہ پیما جان کی بازی ہار گئے۔ صرف نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں 1594 افراد لقمۂ اجل بن گئے‘ ہزاروں افراد زخمی ہو گئے اور ہزاروں بے گھر ہو گئے۔ ارمانوں‘ چاہتوں سے بنائے گھر ملیا میٹ ہو گئے۔ زلزلے کے چند جھٹکوں نے انسانی ترقی کو بھربھری مٹی ثابت کر دیا۔ ہر طرف آہ و بکا‘ چیخ و پکار‘ فریاد‘ آہیں اور نالے تھے۔ عمارتیں زمین بوس ہو گئیں۔
نیپال کے علاوہ بھارت میں 86‘ چین میں بارہ اور بنگلہ دیش میں 5 افراد زلزلوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ زلزلے کی شدت 7.9 بتائی گئی ہے۔ زلزلے کی شدت اگر 5.8 ہو تب بھی بڑی تباہی آتی ہے جبکہ نیپال میں زلزلہ کی شدت 7.9 تھی۔ اس زلزلے کے جھٹکے پاکستان میں بھی محسوس کئے گئے ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق پورا پاکستان زلزلوں کی زد میں ہے۔ معلوم نہیں محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر نے یہ بات پاکستان کے سیاسی اور معاشرتی و معاشی حالات دیکھ کر کی ہے یا پھر موسمی تغیرات کے تحت بتائی ہے۔ پاکستان میں تو جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس نے پوری قوم کو زلزلے کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہر روز ایسے واقعات و حادثات رونما ہوتے ہیں کہ دل کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں امیر تو امیر ترین ہیں اور غریب بے چارے غریب ترین ہیں۔ جو بے چارے مڈل کلاس ہیں‘ ان کیلئے دونوں راہیں کٹھن ہیں۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ غریبی برداشت نہیں ہوتی اور امیر بننے کی تگ و دو میں لوگ نفسیاتی و جسمانی عوارض میں مبتلا ہو رہے ہیں کیونکہ پاکستان میں امیر ہونے کیلئے نہ تو کوئی میرٹ ہے نہ کوئی Criteria ہے۔ امیر بننے کے تمام راستے کرپشن‘ بددیانتی‘ ناانصافی‘ حق تلفی اور بے ایمانی کی پگڈنڈی سے ہوکر گزرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں نہ تو جاب ہے نہ ہی ایسی معاشی پالیسیاں ہیں جن کے ذریعے انسان محنت سے چار پیسے کما سکے۔ ویسے بھی ایک امپورٹڈ سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے اپنے اثاثے بڑھانے کیلئے پاکستانی عوام کو ٹیکسوں کے گورکھ دھندے میں ایسے الجھایا ہے کہ آج ہر پاکستانی ٹیکس دے رہا ہے اور کنگلا ہو رہا ہے۔ انسان مر رہا ہو تو اسے مفت میں دو گھونٹ پانی بھی نہیں ملتا۔ اس کیلئے بھی کسی شاپ یا ڈیپارٹمنٹل سٹور سے رقم دیکر پانی نصیب ہوتا ہے۔ اب تو سانس لینے پر بھی ایک طرح سے ٹیکس دینا پڑتا ہے۔
یعنی اتنی ماحولیاتی آلودگی ہے کہ سانس لینے کیلئے ماسک اور ایئر فریشنر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ زندہ رہنا مشکل ہے تو مرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ مرنے والا مر جاتا ہے اور اپنے پسماندگان کو ایک نئے امتحان میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ لواحقین جہاں اپنے پیارے کی جدائی میں نڈھال ہوتے ہیں‘ وہاں مرنے والے کی تجہیز و تکفین کے لوازمات خود اُسے بھی جینے نہیں دیتے۔ کلینک یا ہاسپٹل کی ڈسچارج سلپ سے لیکر اس کی تجہیز و تکفین‘ قل‘ جمعراتیں‘ دسویں‘ چہلم اور برسیوں تک پسماندگان کی حالت اتنی پسماندہ اور قابل رحم ہو جاتی ہے کہ لگتا ہے ایک بندہ نہیں مرا‘ اس کا پورا خاندان عذاب میں آگیا ہے۔ اس کیلئے ہر دن میں کوئی نہ کوئی نیا یا بڑا زلزلہ نازل ہوتا ہے۔
اگر گھر میں کسی کی شادی کرنی ہو توگھر کے سربراہ کی زندگی میں چھوٹے بڑے زلزلے آنے لگتے ہیں جنہیں وہ بڑی مشکل سے کنٹرول کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری زندگیوں سے خوشی‘ سکون‘ امن روٹھ گیا ہے۔ ہم ہر وقت کسی نہ کسی افتاد یا زلزلے کے نرغے میں رہتے ہیں۔ رواداری‘ برداشت اور اخلاق ہمارے وجود سے خارج ہو تا جا رہا ہے۔ دولت‘ اقتدار‘ اختیار‘ عہدے‘ مراتب نے ہمیں ایک ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے جہاں ہم سے فیصلہ نہیں ہوتا کہ ہم کدھر جائیں۔ دو جذبیت نے ہمارے اعصاب کو جکڑ رکھا ہے۔ ہم کشمکش میں گرفتار رہتے ہیں اس لئے بحیثیت قوم ہمارا رویہ جھنجھلاہٹ کا ہے۔ ہم چڑچڑے‘ بدمزاج‘ اکھڑ‘ متعصب‘ حریص اور منافق ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم کردار اور اعمال میں شکست خوردہ نظر آتے ہیں‘ لیکن باتوں اور بڑھکوں میں فاتح عالم ہیں۔
پاکستان میں ہزاروں‘ لاکھوں لوگ اپنی حق تلفیوں اور میرٹ کی توہین پر خون کے آنسو پیتے ہیں اور موت سے بدتر زندگی جیتے ہیں۔ حکمرانوں کو پروا ہے نہ سیاستدانوں کو۔ انہیں تو ضمنی الیکشن میں ایک سیٹ جیتنے کیلئے کروڑوں روپے دائو پر لگانے میں عار نہیں۔ کنٹونمنٹ بورڈ الیکشن کیلئے تو ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا مگر غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کیلئے کبھی کچھ نہیں کیا۔ ڈائریکٹر محکمہ موسمیات نے صحیح کہا ہے کہ پاکستان زلزلوں کی زد میں ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38