سیریل کلر‘ اجرتی قاتل اور جنسی درندہ گرفتار
ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، ڈکیتی مزاحمت اور اجرت کے عوض قتل کرنے کے حوالے سے کراچی سے خوفناک داستانیں سامنے آئی ہیں۔ اس سے پاکستانی پریشان ہوئے بلکہ دنیا بھر میں بدنامی ہوئی۔ اخبارات سمیت تمام چینلز کی توجہ بھی اس طرف ہے لیکن سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں ایک ایسا اجرتی قاتل بھتہ خور اور جنسی خواہشات کے عوض قتل کرنے والا درندہ سامنے آیا ہے کہ جیسے جیسے اس حوالے سے معلومات اکٹھی کرتا گیا خود بھی حیران اور پریشان ہوگیا۔ اغوائے برائے تاوان، بھتہ خوری، خونی ڈکیتیاں، زیادتی کے بعد قتل جیسے واقعات تو سنتے اور لکھتے رہتے ہیں لیکن جنسی خواہش پوری کرنے کے لئے کسی شخص کو قتل کر دیا جائے ایسا شائد پہلے کبھی رپورٹ نہیں ہوا۔ ایک ایسا ہی ظالم تھانہ ستراہ پولیس نے پکڑا ہے جس پر دو چار نہیں 56 افراد کو مارنے کا الزام ہے۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ رشید عرف فوجی نے اتنی بڑی تعداد میں قتل 15 سال سے زائد عرصہ میں کئے۔ رشید عرف فوجی ولد محمد ادریس کا تعلق ماچھی کھوکھر برادری اور سمن آباد گوجرانوالہ کا رہائشی ہے۔
ظالم شخص نے دو خوبرو بھائیوں کے کہنے پر خونی کھیل شروع کیا۔ ان سے یہ زیادتی کرتا تھا اور جس کو وہ قتل کرنے کا کہتے یہ اسے مار دیتا۔ اس کے بعد یہ کیس کی پیروی کرنے پر مدعی اور گواہان کو بھی مار دیتا تھا۔ ان دونوں بھائیوں میں وقار عرف مٹھو بٹ اور وقاص بٹ شامل ہیں۔ یہ بٹ خاندان میاں والی بنگلہ تحصیل ڈسکہ کا رہنے والا تھا اور وہاں سے چک جھمرہ منتقل ہوگیا تھا۔ مٹھو بٹ اس وقت ایک قتل میں سزائے موت کا قیدی ہے اور اس کے ڈیتھ وارنٹ بھی جاری ہو چکے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق سیاسی مداخلت کی وجہ سے مجر م کی اپیل صدر کے پاس رکھی ہوئی ہے۔ پولیس ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مٹھو بٹ جیل میں قید ہونے کے باوجود جگا لے رہا ہے اور سزائے موت کے باوجود خوفزدہ نہیں ہے۔ مٹھو بٹ کے کل 5 بھائی ہیں جن میں گلزار بٹ پولیس مقابلے میں ہلاک ہو چکا ہے جو پولیس اہلکاروں کے قتل میں بھی ملوث رہا تھا۔ جبکہ شفقت ابرار کو مخالفین نے قتل کر دیا تھا جبکہ اس کے دو بھائی بیرون ممالک ہیں جن میں علی مسقط اور وقاص سائوتھ افریقہ جا چکا ہے۔ جبکہ مٹھو بٹ کے ظلم کا شکار قتل کیس کے مدعی اس کی پھانسی کے منتظر ہیں اور انصاف کے لئے رب کے حضور دعائیں مانگ رہے ہیں۔
رشید عرف فوجی سزا یافتہ او ر اس کے سر کی قیمت 5 لاکھ مقرر ہے۔ اس درندہ نے چند سال پہلے ایک ہی خاندان کے 5 افراد کو قتل کر دیا تھا جن میں بچیوں سمیت 4 خواتین اور ایک مرد شامل ہے جن میں رحم بی بی اس کی بیٹی 14 سالہ شازیہ، 8 سالہ نواسی نادیہ اور 3 سالہ انعم کے علاوہ 22 سالہ اسحاق شامل تھا جبکہ اس خوفناک واردات میں 21 سالہ اکرم زخمی ہوا تھا۔ رشید عرف فوجی نے ان کو مٹھو بٹ کے کہنے پر مارا کیونکہ یہ مقتولین ایک قتل کیس میں گواہان تھے اور انہیں گواہی سے منحرف کر نے کے لئے درندہ انہیں خوفزدہ کر رہا تھا۔ قتل سے پہلے اس نے ان کے گھر ہینڈ گرنیڈ بھی پھینکے تھے جن سے ان کا گھر جل گیا تھا۔ ملزمان نے میاں والی بنگلہ میں خورشید نامی شخص کو جگا نہ دینے پر موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ تھانہ ستراہ پولیس نے سیریل کلر رشید عرف فوجی کو ڈرامائی انداز میں گرفتار کیا۔ ملزم نے تھانہ ستراہ کے علاقہ میں ایک شخص کو فون کر کے 10 ہزار کا ایزی لوڈ منگوایا۔ جس کے بعد پولیس تھانہ سول لائن سیالکوٹ نے ستراہ پولیس سے مل کر اس کی تلاش شروع کر دی۔ اس وقت کے ایس ایچ او تھانہ ستراہ اصغر (موجودہ ایس ایچ او تھانہ صدر ڈسکہ) نے اس کا ڈیٹا حاصل کرلیا تھا لیکن ان کے تبادلہ کے بعد موجودہ ایس ایچ او تھانہ ستراہ مرزا فرمان نے اس کو ڈھونڈ نکالا۔ گوجرانوالہ پولیس نے ملزم کو گرفتار کر لیا تھا۔ ملزم نے آخری قتل بھی تھانہ ستراہ کی حدود میں کیا اور اس کا نشانہ ایک سیاسی راہنما پرویز میو عرف گلا بنا جس کو اس نے 2013ء میںقتل کیا۔ مقتول سماجی ورکر بھی تھا اور علاقہ میں لوگ اسے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
رشید عرف فوجی سیریل کلر نے تھانہ ستراہ کی حدود میں بھی 7 افراد کو قتل کیا جبکہ اس کی خونی وارداتوں کا دائرہ گوجرانوالہ سیالکوٹ شیخوپورہ، فیصل آباد اور لاہور تک پھیلا ہے اور اس کی پشت پناہی میں بااثر سیاسی شخصیات کے نام بھی آ رہے ہیں پولیس ذرائع کے مطابق یہ ملزم جب کوئی قتل کرتا تو بااثر شخصیات کے ڈیروں پر پناہ لیتا اور پھر اس پناہ کی قیمت ان کے کہنے پر ان کے مخالفین کو قتل کرکے ادا کرتا۔ اجرتی قاتل کے پیچھے کچھ ارکان اسمبلی کے نام بھی لئے جا رہے ہیں جن کا تعلق حکومت سے ہے۔ اور یہی وہ بااثر افراد ہیں جو مٹھو بٹ کی پھانسی میں رکاوٹیں اور مدعی کو صلح کے لئے ہراساں کر رہے ہیں۔ مقدمہ قتل کے مدعی گروپ کے ایک شخص آس محمد کا کہنا ہے کہ گوجرانوالہ اور نارووال سے منتخب ارکان اسمبلی مٹھو بٹ کی پشت پناہی اور صلح کے لئے سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ رشید عرف فوجی کو پانچ افراد کے قتل میں سزائے موت ہوئی جو بعد میں عمر قید میں تبدیل ہوگئی۔ تاہم سپریم کورٹ سے بری ہوگیا تھا۔ اس کے بعد ہی اس نے گلزار میو کو قتل کیا تھا۔ اس قتل کے بعد رشید فوجی راولپنڈی چلا گیا جہاں اسلام بٹ (جو مٹھوبٹ کا رشتہ دار بتایا گیا ہے) کے ساتھ مل کر لکڑی کا کام کر رہا تھا۔ انہوں نے راولپنڈی کے علاقہ ڈوھ کھبا میں دکانیں کرائے پر لے کر مزدور رکھے ہوئے تھے لیکن پولیس نے جب کھوجنے کا تہیہ کیا تو اس اشتہاری کو پکڑ لیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق ملزم رشید عرف فوجی نے ابتدائی تفتیش میں بتایا کہ جب تک وہ قتل نہیں کر لیتا تھا اسے سکون نہیں ہوتا تھا۔ وہ کرب میں مبتلا رہتا کسی کو قتل کرکے اسے مزہ آتا تھا۔
نوائے وقت کی انکوائری ٹیم نے درندہ رشید عرف فوجی سے ایس ایچ او تھانہ ستراہ اور ایک مقدمہ قتل کے مدعی کی موجودگی میں بات کی تو اس نے تھانہ کی حدود میں ساتوں افراد کے قتل کا برملا اعتراف کیا۔ حیران کن بات یہ ہے یہ سب اعتراف کرتے ہوئے اس کے چہرے پر ذرا بھی شرمندگی نہ تھی۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ درندہ قانون کے شکنجے میں ہونے کے باوجود اپنے کئے پر شرمسار ہے نہ خوفزدہ کہ جیسے کوئی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔
جنسی ہوس کے عوض قتل کی وارداتیں کرنے والا رشید عرف فوجی شادی شدہ ہے۔ اس کے دو بچوں میں ایک بیٹی سوا سالہ اور بیٹا قریباً ایک ماہ کا شامل ہے۔ جسامت کے لحاظ سے پتلا اور قد 5 فٹ 7 انچ کے قریب ہے۔
رکن صوبائی اسمبلی رانا افضل نے قاتل کی گرفتاری کو پسرور کا بڑا کارنامہ قرار دیا ہے انہوں نے کہا کہ ملزم نے علاقہ میں دہشت پھیلا رکھی تھی اور لوگوں سے بھاری تاوان وصول کرتا تھا۔
حساس اور اہم نوعیت کا کیس اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ تفتیش کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے کیونکہ اس کیس میں ارکان اسمبلی سمیت اہم شخصیت کے نام لئے جا رہے ہیں۔ ضروری ہوگا حکومت معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ایک جے آئی ٹی تشکیل دے جس میں ایجنسیوں کو بھی شامل کیا جائے۔ سانحہ ماڈل ٹائون میں 14 افراد کے قتل صولت مرزا کے انکشافات سمیت اہم کیسز میں جے آئی ٹی بن سکتی ہے تو اس کیس میں کیوں نہیں۔ اس کیس میں معصوم بچیوں سمیت 56 افراد قتل ہوئے ہیں۔ قتل زیادہ ہوئے ہیں یا کم یہ تو مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کاقتل ہے۔ درجنوں افراد مارے گئے ہیں۔ کسی ماں کی گود اجڑی تو کسی کا بیٹا اور بیٹی یتیم ہوئی یا پھر کسی والدین کا سہارا چھین لیا گیا۔ ایسے میں الزامات کی سچائی اور مزید چھپے رازوں کا پردہ کاش کرنے اور انسانیت کی بھلائی کی خاطر یہ حکومت کی ذمہ داری ہے وہ اس اہم کیس کی وسیع پیمانہ پر انکوائری کرائے تاکہ مظلومین کو انصاف مل سکے۔