چھ ہفتے بعد بجٹ کی آفت نازل ہونے والی ہے پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں کہ ہر بجٹ میں حکومت کوئی بھی ہو اپنے لئے نئے سے نئے ذرائع آمدنی تلاش کرتی ہے عوام کو لوری دیکر سلانے کی کوشش کرتی ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ کے لئے آئی ایم ایف کی اطاعت ضروری ہے ۔آئی ایم ایف کی نئی شرائط کے مطابق بڑے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں سے ٹیکس چھوٹ کی رعایت ختم ہونے سے ملک کا خسارہ پورا کیا جا سکتا ہے۔ جن سے رعایت واپس لینے کیلئے کہا جا رہا ہے وہ سارے کے سارے ایوان ہائے اقتدار میں براجمان ہیں۔ یہ تو عوام ہیں جو اپنے سارے یوٹیلٹی بلوں پر ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ کونسا شہر ایسا ہے جہاں ملاوٹ مافیا کا راج نہیں۔ دودھ کے ایک لاکھ نمونے روزانہ لے لئے جائیں تب بھی خالص دودھ میسر نہیں آ سکتا۔ چائے کی پتی، کیچپ، کوکنگ آئل میں حرام جانوروں کے تیل کی ملاوٹ، پروٹین بڑھانے کیلئے دودھ میں یوریا اور کیمیکلز کا استعمال قربِ قیامت کا پتہ دے رہا ہے۔
دوستوں کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ چین ہمارے دوستوں میں پہلے سعودی عرب دوسرے اور ترکی تیسرے نمبر پر ہے۔ دنیا بھر کے کسی ملک نے آج تک پاکستان میں 45 کھرب 67 ارب روپے سرمایہ کاری کے معاہدے نہیں کئے نہ ہی کسی دوسرے ملک سے تجارتی حجم 20 ارب ڈالر تک لانے پر اتفاق ہوا ہے۔ توانائی کے شعبے میں 34 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کے بعد ہمارے ہاں بجلی فاضل ہو گی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے بعد پاکستان چینی بینکوں کا بھی بارہ ارب ڈالر کا مقروض ہونے جا رہا ہے۔ چین کے تعاون سے تھر میں کوئلے سے 6600 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔ چینی صدر کے مطابق 2025ء تک پاکستان ایشین ٹائیگر بننے کی پوزیشن میں ہو گا۔ ہمیں اس بات پر غور کرنا ہے کہ چین چین کیسے بنا؟ تعلیم نے چین کو چین بنایا کہ ساری دنیا اس کا لوہا مان رہی ہے۔ تعلیم کے باب میں ہماری پسپائی سب پر عیاں ہے۔ ہائی سکولوں میں بچوں کی تعداد 2012-13ء میں 2835326 سے کم ہو کر 2013-14ء میں 2318840 رہ گئی۔ پرائمری سطح کے 18 لاکھ بچے مدارس میں پڑھ رہے ہیں۔ 35 فیصد سکولوں کے پاس تو صاف پانی کی سہولت تک نہیں۔ 31 فیصد سرکاری سکول ٹائلٹوں کے بغیر چل رہے ہیں۔ 41 فیصد سکولوں کے پاس تو بجلی تک نہیں۔ پنجاب میں 9 لاکھ 57 ہزار بچے سکولوں میں داخلوں سے محروم ہیں۔ سکول مارکیٹ کا زیادہ شیئر پرائیوٹ سکولوں کے پاس جا رہا ہے۔ میٹرک کے امتحان کے فوراً بعد بڑے پرائیویٹ کالجوں نے مفت پری فرسٹ ائیر ایڈمیشن شروع کر رکھا ہے۔ شکر ہے سرکاری کالجوں نے دیر سے انگڑائی لی اور اپنے اساتذہ کی ٹیمیں بنا کر انہیں تمام سرکاری سکولوں میں بھیجا کہ ہیڈ ماسٹر صاحبان سے ان بچوں کے رابطہ نمبر حاصل کر لیے جنہوں نے میٹرک کا امتحان دے رکھا ہے تاکہ انہیں سرکاری کالجوں میں تین ماہ پری فرسٹ ائر ایڈمیشن دے کر مفت تعلیم دی جائے ورنہ چند سال سے ایسا ہو رہاہے کہ میٹرک والے بچے پرائیویٹ سکولوں کی زینت بن رہے ہیں۔ سرکاری کالجوں میں تعداد گھٹتی جا رہی ہے حالانکہ سرکاری کالجوں کے اساتذہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کے مقابلے میں فرسٹ کلاس ڈگری کے حامل اور پبلک سروس کمیشن کے ذریعے چنے ہوئے ہوتے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی کشش میں کمی کی وجہ بنیادی سہولتوں کا فقدان اور نامناسب فرنیچر بھی ہے۔ خادم اعلیٰ نے لیپ ٹاپ اور میٹرو بسوں پر فراخدلانہ پیسہ لٹایا ہے لیکن سرکاری تعلیمی اداروں کو پرکشش بنانے کی کوشش نہیں کی۔ دانش سکول بنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ دانش نام رکھ کر دانش مندی نہیں آتی عقل و دانش اللہ کی عطا ہوتی ہے۔ حکومت آنرز، ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگریاں رکھنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے حکومت سے تو گنتی کے نابینا پڑھے لکھے بھی سنبھالے نہیں جاتے۔ سکولوں کو پرکشش بنانے کی بجائے انہیں این جی اوز کی گود میں ڈالتی جا رہی ہے ۔ پڑھا لکھا پنجاب یا پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب کے نعروں سے ایشین ٹائیگر نہیں بن سکتے زمینی حقائق دیکھ کر نوجوان مایوسی کی طرف جا رہے ہیں۔ پوزیشن ہولڈرز ہونے کے تمغے سجائے نوجوان لڑکے لڑکیاں سرکاری ملازمت کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں خون پسینہ ایک کر کے بھی مناسب معاوضہ نہیں ملتا۔ بھٹو نے اسی استحصال کو دیکھ کر نیشنلائزیشن کی تھی۔ اس بات کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ سرمایہ داری نظام میں استحصال ہی ہوتا ہے۔ ہم معاشرے کو چائلڈ لیبر سے تو آزاد نہیں کر سکتے پھر انسانی حقوق اور منصفانہ معاشرہ کی بات کس منہ سے کرتے ہیں۔ ریاستی مشینری بالخصوص پولیس کا جبر و زور موٹر سائیکل سواروں اور چنگ چی رکشا چلانے والوں پر ہی چلتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ ہم دینی مدارس کی بات کرتے ہیں۔ عسکری ونگوں کی بات کرتے ہیں۔ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دینی مدارس بچوں کو اقامتی سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ دو وقت کھانا کھلاتے ہیں۔ غریبوں کے بچوں کیلئے ان مدارس سے زیادہ کشش اور کہیں نہیں ہو سکتی۔ مدرسہ اصلاحات کیلئے دینی قوتوں اور حلقوں سے ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ چین جیسا بننے کیلئے تعلیمی ایمرجنسی کی ضرورت ہے۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024