جب بھی تلملاتا ہوا شاہ خاور اپنی نظریں شمال کی طرف پھیرتا ہے، تمازت آفتاب میں نمایاں کمی آنے لگتی ہے۔ لوڈشیڈنگ اور گرمی کے ستائے ہوئے لوگ سکھ کا سانس لینے لگتے ہیں تو ایک گرما گرم بحث شروع ہو جاتی ہے۔ مغربیت سے متاثر لوگ کچھ یوں واویلا کرتے ہیں جیسے ایک ظلم عظیم ہونے والا ہے۔ جیسے حجاج بن یوسف محض ایک فرد نہیں تھا، ایک سوچ اور فکر کا مظہر تھا۔ اس نے بھی ہزاروں بے گناہوں کو تہہ تیغ کیا تھا، عصر حاضر کے ’’حجاج‘‘ بھی معصوم جانوں کے درپے ہیں۔ وہ تو ظلم اور زیادتی کے باوصف بنی نوع انسان کو ختم نہ کر سکا تھا لیکن یہ لوگ ایک نسل کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے ہیں۔ جس بے دردی، سرعت رفتار اور مکینکی انداز میں عرب شیخ تلوروں کا شکار کر رہے ہیں محض گمان نہیں بلکہ یقین واثق ہوتا ہے کہ ’’ہوبارہ بسٹرڈ‘‘ کی نسل ختم ہو جائے گی۔ صرف تاریخ میں اس کا تذکرہ ہو گا۔
یہ وہ لوگ ہیں جو ہر تبدیلی کے مخالف ہیں۔ یہ وہ گروہ ہے جس نے تنقید کو حرز جاں بنایا ہوا ہے۔ مری کے بالمقابل دوسرا شہر نہیں بسنے دیتے کیونکہ ان کے خیال میں درخت کٹنے سے ماحولیاتی آلودگی بڑھے گی۔ کینال بینک پر سڑک کشادہ نہیں کرنے دیتے کیونکہ نہر کے کنارے درختوں نے جو خوبصورت چھتری تان رکھی ہے وہ ختم ہو جائے گی۔ ان لوگوں نے تو چوبرجی سے چار سو میٹر دور ’’پیڈسٹرین برج‘‘ کی بھی اس لئے مخالفت کی تھی کہ اس سے شکست و ریخت کا شکار تاریخی عمارت کا حسن ماند پڑ جائے گا۔ ہندوستان میں بے شمار ہل سٹیشن ہیں، پاکستان میں محض ملکہ کہسار مری تھی، وہ بھی اب مری مری نظر آتی ہے۔ یہ اب کوئین کم اور مادر ملکہ زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ کہنے کو تو سکردو، گلگت، ہنزہ وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ وہاں نہ جدید سہولیات ہیں نہ انفراسٹرکچر ہے۔ لاء اینڈ آرڈر کے مسائل الگ ہیں۔ انکی نسبت غالباً تاشقند جانے میں کم خرچ اٹھتا ہے۔
ہمارے کچھ دورنگاہ دوستوں نے تو تلور کے شکار کے ڈانڈے جنسی آسودگی سے جا ملائے ہیں یعنی جو اثر عصر حاضر کی ایجاد ’’نیلی گولی‘‘ نہیں کر سکتی، وہ کارنامہ نیم سرخ گوشت سرانجام دے سکتا ہے۔ الفاظ سے چسکا لینے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ طائر تصور کو وہاں تک نہیں لے جانا چاہئے جہاں اسکے پر جلنے لگیں۔ یہ کہنا کہ عرب شیوخ کی وجہ سے تلور کی نسل ختم ہو رہی ہے اور وہ یہاں شکار کی غرض سے نہیں بلکہ محض داد عیش دینے آتے ہیں، سراسر زیادتی ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے ڈرائنگ روم سے نکل کر صحرا کا رخ کریں تو ان پر صورتحال روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گی۔
عرب شیوخ کی وجہ سے تلور کی نسل ختم نہیں ہو رہی بلکہ شکار کے باوصف اسے PRESERVE کیا جا رہا ہے۔ شاید روشن خیالوں کیلئے یہ انکشاف چونکا دینے والا ہو لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی طور مفر نہیں۔ میں 1986ء سے 1990ء تک رحیم یار خان کا ڈپٹی کمشنر رہا۔ کمشنر بہاولپور ڈویژن رہا۔ مجھ سے زیادہ اصل صورتحال کم لوگ ہی جانتے ہونگے۔ بہاولپور ڈویژن میں حکومت پاکستان نے شکار گاہیں مختص کر دی ہیں۔ ابوظہبی والوں کے حصے میں رحیم یار خان کا چولستانی صحرا آیا ہے۔ دبئی کے حکمران ضلع بہاولپور میں شکار کرتے ہیں۔ بہاولنگر کا بیشتر حصہ سعودیوں کے پاس ہے۔ سکیورٹی اور مسلسل VIGILANCE کی وجہ سے عام آدمی چوری چھپے بھی شکار نہیں کر سکتا۔ اس سے پہلے ہرچہ باداباد تھا۔ شکاریوں کی ٹولیاں صحرا میں تباہی مچا دیتیں۔ تلوروں کے ساتھ ہرنوں کی بھی سختی آ جاتی۔ بہاولنگر کا ایک ممبر صوبائی اسمبلی بہاولپور میں شکار کرنے گیا۔ اس نے بیس ہرن ایک دن میں مارے، انہیں دو جیپوں میں لاد کر گھر جا رہا تھا کہ صحرا میں ایک جیپ کا انجن جواب دے گیا۔ طوہاً و کرہاً وہ جیپ اور آدھے ہرنوں کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اس کیخلاف پرچہ تک درج نہ ہونے دیا گیا۔ حکومت وقت کا لاڈلا تھا۔ سب MPA اس کے پیچھے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہو گئے۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات! ملک کی ایک مشہور مغنیہ کا بھائی خانپور میں جانوروں اور پرندوں کے کشتوں کے پشتے لگا دیتا، کسی کو اسکے پکڑنے کی جرات نہ ہوتی۔ کوئی ذی شعور اہلکار صاحب لوگوں کی ناراضی مول نہیں لے سکتا۔ مغینہ بھی ایسی جس کی ڈھلتی ہوئی عمر کے باوصف انگ انگ بول کر کہہ رہا ہو… ابھی تو میں جوان ہوں!
علاوہ ازیں شاطر شکاری POACHING کے ذریعے زندہ تلور پکڑوا کر خلیجی ریاستوں میں مہنگے داموں بیچتے ہیں۔ وہ عرب سردار جو بیرون ملک جا کر یہ شغل نہیں کر سکتے، وہ اپنے ملک میں ہی شوق شکار پورا کر لیتے ہیں۔ ’’پوچرز‘‘ میں رائے احمد علی کا نام سرفہرست تھا۔ ایک دن ہمیں اطلاع ملی کہ اس نے شہر سے باہر ایک مکان میں کثیر تعداد میں تلور رکھے ہوئے ہیں اور عنقریب ہی انہیں سمگل کریگا۔ جب ہم نے چھاپہ مارا تو حیرت کی انتہا ہو گئی۔ لگ بھگ دو سو زندہ تلور مکان کے مختلف کمروں میں دانہ چگ رہے تھے۔ ہم نے مال مسروقہ قبضہ میں لیا اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف کو اطلاع دی۔ انہوں نے فرمایا کہ سب تلور شیخ زید کو تحفتاً دے دیئے جائیں۔ پیلس منیجر خورشید نے اطلاع دی کہ شیخ نے گفٹ قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ساتھ ہی مشورہ دیا کہ اسیر پرندوں کو آزاد کر دیا جائے۔ وہ گرمیوں کے دن تھے اور شکار کا موسم نہیں تھا چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور وڈیو فلم وزیراعلیٰ اور شیخ زید کو بھجوائی گئی۔ کمشنر بہاولپور ملک مجید صاحب کو بھی کسی نے اس پرندے کے گوشت کی کرشماتی خوبیوں سے آگاہ کر رکھا تھا، انکی خواہش تھی کہ چند پرندے انہیں ’’دان‘‘ کر دیئے جائیں۔ ملک صاحب ریٹائرمنٹ کے قریب تھے اور جذبات کا وہ بحر منجمد بن چکے تھے جس سے سورج کی کرنیں تو کیا خود آفتاب بھی ٹکرا کر ندامت محسوس نہیں کرتا۔ میں نے بصد احترام معذرت کر لی۔ جس جرم میں رائے احمد علی کو دھر لیا گیا تھا، ہم خود اس کے کیسے مرتکب ہو سکتے تھے! ملک صاحب اس جسارت کو کبھی بھلا نہیں پائے لیکن یہ ایک الگ قصہ ہے!
شیخ صاحبان جتنے پرندے شکار کرتے ہیں اس کی بھاری قیمت محکمہ وائلڈ لائف کو ادا کرتے ہیں لیکن اگر OVER HEADS ڈالے جائیں تو انہیں ایک پرندہ دس بیس لاکھ روپے میں پڑتا ہے۔ جمبو جہازوں کی آمدورفت، غریبوں کو وظائف، تعمیراتی منصوبے، ہسپتالوں کی تعمیر، مفت علاج معالجہ، تلوروں اور دیگر پرندوں کیلئے بھی ہسپتال بنایا گیا ہے۔ ہندوستان ہزار کوششوں کے باوجود انہیں اپنی شکار گاہوں کی طرف راغب نہیں کر سکا۔ یہ لوگ بندوق استعمال نہیں کرتے، ہرن کا شکار نہیں کرتے، دراصل حظ اس لمحے سے اٹھاتے ہیں جب فیلکن تلور پر جھپٹتا ہے۔ اسے گردن سے دبوچ کر زمین پر لے آتا ہے۔ اسے علامہ اقبال کے الفاظ میں لہو گرم رکھنے کا بہانہ کہیں یا شیکسپیئر کے انداز میں ONE FELL SWOOP سمجھیں یا مغرب سے متاثر تنقید نگاروں کے خیال میں زیادتی گردانیں! فیصلہ تاریخ نے کرنا ہے!
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024