لاہور پولیس جرائم کی روک تھام میں ناکام
سابق سی سی پی او لاہور چودھری شفیق گجر ڈی آئی جی رانا عبدالجبار اور ڈی آئی جی انوسٹی گیشن ذوالفقار حمید کی رخصتی کے بعد نئے آنے والے سی سی پی او اور ڈی آئی جی آپریشن نے تعیناتی کے ساتھ ہی لاہور میں جرائم کی روک تھام کے حوالے سے بلند و بالا دعویٰ کئے۔ دونوں افسران نے دعویٰ کیا کہ آئندہ دنوں میں لاہور میں جرائم کی شرح کم ہو گی جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی۔ اور وارداتوں کا سلسلہ رک جائے گا تھانہ کلچر میں تبدیلی آئے گی کھلی کچہریوں میں شہریوں کے مسائل حل کئے جائیں گے۔ شہر میں امن و امان کے قیام کے لئے بھی خصوصی اقدامات کئے جائیں گے۔ تعیناتیاں میرٹ پر کی جائیں گی۔ کرپٹ پولیس اہلکاروں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی اور بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجہ سے پھیلا ہوا خوف ختم ہو گا۔ تمام تر حقائق ان پولیس افسران کے دعوئوں کے برعکس ہیں شہر لاہور میں روزانہ کی بنیاد پر وارداتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جرائم پیشہ عناصر کھلے عام وارداتیں کر رہے ہیں شہر میں قتل و غارت اور خوف و ہراس کی فضا ہے۔ دن دیہاڑے شہریوں کے قتلوں کا سلسلہ جاری ہے اور اندھے قتلوں کی وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ خواتین ، ننھے بچوں سمیت اغواء برئے تاوان کی وارداتیں بھی جاری ہیں چوروں اور ڈاکوئوں نے شہریوں کا جینا محال کر دیا ہے ہزاروں شہریوں کی عمر بھر کی جمع پونجی لوٹنے کا سلسلہ جاری ہے شہر میں دن دیہاڑے قیمتی چیزیں چھینی جا رہی ہیں۔ ہزاروں شہریوں کی گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، چوری اور چھینی جا رہی ہیں جوئے خانے اور بک میکر سرعام دھندے چلا ئے جارہے ہیں جبکہ منشیات فروشی کا دھندہ بھی عروج پر ہے۔ شہر میں سود خود اور فراڈئیے بھی بڑی تعداد میںسرگرم عمل ہیں اور سادہ لوح شہریوں کو لوٹنے کا سلسلہ جاری ہے۔ بڑھتی ہوئی وارداتیں شہریوں کے لئے درد سر بنی ہوئی ہیں جبکہ وارداتوں کے بعد اندراج مقدمہ شہریوں کے لئے آسان نہیں تھانوں میں شہریوں سے پولیس اہلکاروں کی بدتمیزی، غیر مناسب سوالات اور مقدمات کے اندراج کے لئے رشوت خوری بھی جاری ہے جبکہ ڈکیتی کی واردات پر چوری کا مقدمہ بھی بڑی منت سماجت کے بعد درج کیا جاتا ہے تھانے کے ایس ایچ اوز اپنی کارکردگی بہتر رکھنے کے لئے ڈکیتی کا مقدمہ درج ہی نہیں کرتے شہر میں کھلی کچہریوں کے باوجود شہریوں اور پولیس کے درمیان فاصلوں کوکم نہیں کیا جا سکاآج بھی پولیس روئیے اور پولیس کی کارکردگی پر شہری شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ بہتر کارکردگی کے دعوے کرنیوالے افسران 2014 میں شہر میں ہزاروں شہریوں کے ساتھ ہونے والی وارداتوں پر نظر ڈالے تو یقیناً انھیں پولیس کی کارکردگی کا اصل چہرہ دکھائی دے گا۔ افسوسناک امر ہے کہ ان ہزاروں وارداتوں کے ملزمان میں سے پولیس آدھی وارداتوں کے ملزمان کا سراغ بھی نہیں لگا سکی۔ ہزاروں کیسوں کی انویسٹی گیشن مکمل نہیں کی جا سکی۔ شہری تھانوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ انوسٹی گیشن آفیسر شہریوں کی بات سننے کو تیار نہیں۔ ملزمان کی گرفتاری کے لئے ٹرانسپورٹ اور پولیس اہلکاروں کے کھانے پیسے کیلئے شہریوں سے وصول کئے جا رہے ہیں۔ سال 2014ء میں سینکڑوں قتل کی وارداتوں کے دوران صوبائی دارالحکومت میں 474 شہریوں کو قتل کیا گیا ہے اور پولیس ان شہریوں کے قتلوں کے کیسوں میں سے 143 کیسوں کی انوسٹی گیشن مکمل نہیں کر سکی۔ 17 شہریوں کے قاتلوں کو کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا شہر میں اندھے قتلوں کی وارداتوں میں 41 شہریوں کو قتل کیا گیا 15 قتلوں کے ملزمان کا کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا 14 اندھے قتلوں کے کیسوں کی انوسٹی گیشن مکمل نہیں کی جا سکی۔ شہر میں ننھے بچوں او خواتین کے اغواء کا سلسلہ بھی جاری اور کروڑوں روپے تاوان وصول کیا گیا جبکہ پولیس تحفظ دینے میں ناکام رہی شہر میں چوری کی وارداتیں بھی عروج پر رہی ہزاروں شہریوں کی عمر بھر کی جمع پونجی چور لے اڑے شہر میں مجموعی طور پر 4041 چوری کی وارداتوں میں شہریوں کے 1 ارب 93 لاکھ 86 ہزار 71 روپے چوری کئے گئے اور مقدمات کے اندراج کے بعد پولیس تاحال 1608 وارداتوں کے ملزمان کا سراغ ہی نہیں لگا سکی۔ 887 کیسوں کی انوسٹی گیشن مکمل نہیں کی جا سکی۔ اور تھانوں میں شہریوں کو خوار کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ شہر میں ڈاکوئوں نے ڈکیتی مزاحمت پر 35 شہریوں کو سرعام سڑکوں اور گلیوں میں گولیاں مار کر قتل کر دیا اور کروڑوں روپے لوٹ کر لے گئے۔ ڈکیتیوں کی مجموعی وارداتوں میں پولیس درجنوں کیسوں کے ملزمان کا سراغ نہیں لگا سکی اور لوٹے گئے کروڑوں روپے کی ریکوری ممکن نہیں ہو سکی۔ وارداتوں سے شہری اتنا خوف زدہ ہو گئے ہیں کہ 276 وارداتوں میں سڑکوں پر جاتے ہوئے ڈاکوئوں نے شہریوں کو روکا اور اسلحہ دکھائے بغیر شہریوں نے نقدی ، زیورات، موبائل ، گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں ان کے حوالے کر دی ان وارداتوں میں 85 وارداتوں کے ملزمان کا سراغ ہی نہیں لگایا جا سکا جبکہ 60 کیسوں کی انوسٹی گیشن مکمل نہیں کی جا سکی۔ شہر میں اربوں روپے مالیت کی 1084 گاڑیاں اور 4798 موٹر سائیکلیں چوری کر لی گئیں موٹر سائیکل چوری کی وارداتوں میں سے 2412 جبکہ کار چوری وارداتوں میں سے 560 وارداتوں کے ملزمان کا پولیس سراغ ہی نہیں لگا سکی شہر میں دن دیہاڑے گن پوائنٹ پر کروڑوں روے مالیت کی 46 گاڑیاں چھین لی گئیں ان وارداتوں کے بیشتر ملزمان کا بھی سراغ نہیں لگایا جا سکا جبکہ بے خوف ڈاکوئوں نے شہر میں 563 شہریوں کی گن پوائنٹ پر موٹر سائیکلیں چھینی اور چھیننے والوں کی بڑی تعداد آزاد گھوم رہی ہے۔ ایک جانب لاہور کے شہری وارداتوں ، جمع پونجی لوٹنے پر شدید پریشان ہیں تودوسری جانب پولیس کی جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی میں مسلسل ناکامی ،ملزمان کی عدم گرفتاری اور پولیس کے روئیے نے شہریوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ پولیس افسرن اصل حقائق دیکھے تو یقیناً کارکردگی کے دعوئوں کی بجائے شہریوں کو تحفظ دینے اور جرائم کی وارداتوں کے کنٹرول پر توجہ دینگے۔