تھانہ کلچر کا خاتمہ ……یہ خواب کب شرمندہ تعبیر ہو گا؟
پنجاب ہو یا پاکستان کا کوئی بھی صوبہ ایک طویل عرصہ سے حکمرانوں کے یہ دعوے عوام سنتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ تھانہ کلچر کا خاتمہ کر دیں گے لیکن یہ دعویٰ پاکستانی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو تھانہ کلچر کا خاتمہ ایک خواب نظر آتا ہے، پورے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں فوجی حکومت ہو، نیم فوجی حکومت یا نام نہاد جمہوری حکومت ہو تھانہ کلچر ہر عہد میں مرحوم حفیظ جالندھری کی نظم ابھی تو میں جوان ہوں کا راگ گاتا نظر آتا ہے، عوام کے کان یہ دعویٰ سنتے سنتے پک گئے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف اپنے ہر عہد وزارت اعلیٰ میں یہ دعویٰ کتنی بار کر چکے ہیں اس پر پولیس پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے والا ہی کوئی سکالر تحریر کر سکتا ہے بلکہ ہمیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تھانہ کلچر کا خاتمہ جس طرح آج کے زمانہ کے لیڈروں کا بجلی اور گیس بحران کا خاتمہ پسندیدہ موضوع ہے اور عوام کو بے وقوف بنانے، اپنے مقام میں پھنسنے کا مجرب ترین نسخہ کیمیا ہے ایسے ہی تھانہ کلچر کے خاتمہ کا نعرہ مستانہ ہے حالانکہ بعض اوقات تو ایسے واقعات بھی منظرعام پر آتے ہیں جو پولیس ریاست کے فلسفہ کی ترجمانی کرتے ہیں۔ موجودہ دور چونکہ انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کا دور ہے لہٰذا پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف نے ارفع کریم سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک کے ایک اعلیٰ سطح اجلاس کی صدارت کے دوران اپنے خطبہ میں کہا کہ تھانوں میں کمپیوٹرائزیشن کی ضرورت ہے اور تھانہ کلچر میں تبدیلی کے لئے احتساب ناگزیر ہے۔ پولیس پہلے ہی جرائم کی بیخ کنی کے لئے وسائل فراہم کئے تھے اور آئندہ بھی کریں گے۔ تھانوں میں بہتری لانے اور عام آدمی کو انصاف کی فوری فراہمی کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی پر موثر انداز میں عملدرآمد کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے، لہٰذا پنجاب میں جرائم کی بیخ کنی اور جرائم پیشہ افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لئے کمپیوٹرائزیشن کے پائلٹ پراجیکٹ پر مرحلہ وار عمل درآمد کیا جائے گا اور لاہور کے علاوہ جلد ہی پورے پنجاب میں اس پر عمل درآمد شروع ہو جائے گا۔ وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف نے اس پراجیکٹ کو موثر در موثر بنانے کے لئے متعلقہ حکام کو جامع منصوبہ بندی کا ٹارگٹ بھی دیا اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ نتائج چاہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تھانہ کلچر کیا بلا ہے ابھی تک اس کی کوئی واضح تعریف کا تعین نہیں ہو سکا کیونکہ ہمارے سیاست دان جس کو تھانہ کلچر کا نام دیتے ہیں حکمرانوں کے نزدیک وہ قانون کی بالادستی اور حکمرانی قائم کرنے کے اقدامات ہوتے ہیں جیسا کہ بلاشیڈول طویل ترین لوڈشیڈنگ کو مینجمنٹ کا نام دے کر عوام کو بیوقوف بنانے کی دیرینہ روایت قائم ہیں۔ خدا کرے کہ ہماری پولیس قانون اور آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض کو بطریق احسن سرانجام دینے کی طرف گامزن ہو جائے۔ تحریک انصاف کے کے چیئرمین عمران خان بھی تھانہ کلچر کے خاتمہ کی بات کرتے ہیں اور ان کاد عویٰ ہے کہ صوبہ خیبر پی کے میں تھانہ کلچر کے خاتمہ کی طرف انقلابی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جبکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ سب باتیں محض نعرہ بازی ہیں ورنہ جو صورت حال پنجاب میں ہے اس سے بدتر صوبہ خیبر پی کے میں ہے۔ تھانہ کلچر چلیں ایک نعرہ ہی سہی لیکن جب تک پولیس فورس کی قیادت ایسے ہاتھوں میں نہیں ہوتی جو ایماندار بھی ہو اور ایماندار اس کی گھٹی میں شامل ہو اور جو اپنے فرائض پوری دیانت کے ساتھ ادا کرتے ہوں جو انہیں قانون نے دیئے ہیں ،وہ حکومت کی بجائے یعنی حکمرانوں کی بجائے خود کو ریاست کا ملازم قرار دیتے ہوں جیسا کہ قائداعظم نے پولیس افسروںاور انتظامی افسروں کے ایک نمائندہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ قانون کو مقدم قرار دو اور وہی کرو جو قانون اجازت دیتا ہے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں بلکہ ایسے بہت سے واقعات اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ قانون اور آئین پر عمل پیرا ہونے والے پولیس افسروں کو حاکموں نے کھڈے لائن لگا دیا۔ حکمرانوں کا یہی عمل اور یہی وطیرہ ہی دراصل تھانہ کلچر کی بنیاد ہے جس طرف کوئی توجہ نہیں کرتا بلکہ تمام اپنے اپنے مفادات کے اسیر ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف نتائج کی بات کرتے ہیں تو ہم فیصل آباد کے حوالے سے اپنی بات کا آغاز کرتے ہیں کہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق پولیس کی وردی میں ملبوس دس مسلح افراد نے تھانہ کنجوانی پر حملہ کر دیا اور پولیس کے عملہ کو انہیں کی حوالات میں بند کر کے اپنے ساتھی چھڑوا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ جن ملزمان کو مسلح افراد رہا کروا کر اپنے ساتھ لے گئے جو ڈکیتی اور راہزنی کی سنگین وارادتوں میں ملوث تھے۔ اس واردات کا علم اس وقت ہوا جب گشتی پولیس معمول کے مطابق تھانہ میں داخل ہوئی تو باغ ہی اجڑ چکا تھا۔ سی پی او فیصل آباد نے اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ایس ایچ او،تفتیشی افسر،تھانہ محرر کو فوری طور پر معطل کر دیا،ان کے خلاف غفلت مجرمانہ کے تحت مقدمات کا اندراج بھی کر لیا گیا۔ فیصل آباد میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں قبل ازیں جو واقعات ہوتے رہے تحقیقات پر ثابت ہوا کہ پولیس اور ملزمان میں گٹھ جوڑ تھا،پلاننگ کے تحت ہی فرار کا ڈرامہ رچایا گیا۔ اب جو ملزمان فرار ہوئے ہیں فیصل آباد کے چھ تھانوں کے تفتیشی افسران پر ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو ملزمان کو گرفتار کرے گی۔پولیس کی ٹیمیں مختلف مقامات پر چھاپے بھی مار رہی ہے،فرار ہونے والے کب گرفتار ہوتے ہیں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن جو کہانی بیان کی جاتی ہے کہ ڈکیتی کے الزام میں ہڑپہ ضلع ساہیوال کے ملزمان اسد وغیرہ کو حوالات میں بند کر رکھا تھا کہ رات تین بجے کے قریب وہ تھانہ کی عمارت میں داخل ہوئے اور خود کو تھانہ شاہکوٹ کی پولیس کہا،انہوں نے اپنے پیٹی بند بھائیوں کو تشدد کا نشانہ بنایااپنا ٹارگٹ حاصل کرنے کے بعد کامیابی کا پرچم لہراتے ہوئے فرار ہو گئے۔ اس کہانی میں اس قدر نقائص ہیں کہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے کیونکہ جو ملزمان حوالات سے فرار ہوئے ہیں ان کا تعلق ہڑپہ ضلع ساہیوال سے ہے اور بند تھے تھانہ گڑھ میں کیوں۔ کیا انہیں تفتیش کے لئے ہڑپہ پولیس نے تھانہ گڑھ کی تحویل میں دیا تھا اور پھر تھانہ شاہکوٹ کی پولیس رات کی تاریکی میں کہاں سے آ گئی اس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک ڈرامہ رچایا گیا ہے ، پولیس کے بدعنوان ملازمین اس ڈرامہ فرار میں پوری طرح ملوث ہیں۔ تھانہ کلچر کی جو تعریف کی جاتی ہے اس میں ایسے واقعات بھی آتے ہیں کہ پولیس والے ملزمان سے سازباز کرتے ہیں کبھی انہیں کچہری لے جاتے ہوئے راستہ میں کوئی ڈرامہ کھیل کر فرار کر دیتے ہیں کبھی حوالات پر حملہ آور ہونے کا ڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب ، وزیراعلیٰ میاں محمد شہبازشریف جو تھانہ کلچر کا خاتمہ چاہتے ہیں وسائل کی فراہمی کے ساتھ نتائج بھی چاہتے ہیں تو تھانہ کنجوانی کے اس واقعہ کو ٹیسٹ کیس قرار دے کر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین کی ٹیم کے سپرد اس ٹیسٹ کیس کو دیں تو جلد ہی اصل صورت حال سامنے آ جائے گی کہ اس ڈرامہ میں کس کس پولیس والے نے اپنا کردار ادا کیا ہے اور کون کون ملوث ہے۔ جو پولیس والے ملوث ہیں ان کو قرار واقعی سزا فوری ہونی چاہیے،ان کے خلاف انکوائری بھی برق رفتاری کے ساتھ ایسے پولیس افسروں سے کرانے کی ضرورت ہے جو ایماندار اور دیانتد ار ہونے کے ساتھ قانون کی حکمرانی کو قائم کرانا اپنا فرض قرار دیتے ہوئے اور کسی کے ساتھ رعایت ان کا شیوا نہ ہو اور فرض شناسی ان کی گھٹی میں داخل ہو۔