2013ءکے انتخابات کے لیے جب کاغذات نامزدگی داخل کرائے جارہے تھے تو عام تاثر یہ تھا کہ الیکشن کمشن کاغذات نامزدگی کی بے رحمانہ جانچ پڑتال کے ذریعے ان تمام امیدواروں کوانتخابی عمل سے نکال باہر کرے گا جن پر خائن ہونے اور صادق وامین نہ ہونے کے الزامات ہیں۔ جب ریٹرنگ افسروں نے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت امیدواروں سے اسلام کے بارے میں ان کی معلومات کو جانچنا شروع کیا تو امیدواروں کے دین کے بارے میں علم کا بھانڈہ پھوٹ گیا ۔ کئی امیدواروں کو پانچ وقت کی نمازوں کی رکعتوں کا علم نہیں تھا ۔ کئی آیت الکرسی نہ سنا سکے اور کئی نے قرآن کریم کے سپاروں کے بارے میں مضحکہ خیز جوابات دئیے ۔ کچھ امیدواروں نے نظریہ پاکستان کا مذاق اڑایا تھا لیکن اگلے مرحلے میں سب کے کاغذات نامزدگی منظور کر لئے گئے سابق وزیراعظم پرویز اشرف پر جہاں رینٹل پاور مقدمے میں سنگین الزامات تھے اور جن کے بارے میں سپریم کورٹ نے نیب کو گرفتاری کا حکم دیا تھا ۔ ان کے کاغذات ریٹرننگ افسر نے مسترد کر دئیے تھے ان پر یہ بھی الزام تھا کہ انہوں نے صوابدیدی فنڈز کا غلط استعمال کیا تھا ان کے کاغذات نامزدگی بھی ہائی کورٹ نے منظور کرلئے وہ الیکشن لڑ رہے ہیں ۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی خود تو الیکشن کے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نااہل ہوئے ہیں لیکن ان کے صاحبزادوں کے خلاف کئی سکینڈلوں میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں وہ بھی الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے جن امیدواروں پر الزامات تھے وہ بھی سب کے سب انتخاب لڑنے کے لئے کلیئر قرار دے دیئے گئے ہیں ۔ پاکستان پیپلزپارٹی ‘ مسلم لیگ (ن) ‘ اے این پی‘ ایم کیو ایم ‘ پاکستان مسلم لیگ (ق) ‘ مسلم لیگ فنکشنل ‘ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے جتنے امیدوار انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں سب کے سب پرانے چہرے ہیں وہ اس سے پہلے قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے رکن رہ چکے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی مشرف کے دور میں قومی اسمبلی کے رکن رہے ان کے کئی سینئر ساتھی بھی اقتدار میں رہ چکے ہیں۔ البتہ تحریک انصاف نے نئے لوگوں کو ٹکٹ دیئے ہیں جو میدان سیاست میں نووارد ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیدواروں میں بھی بیشتر وہ حضرات ہیں جو پہلے جماعت کی طرف سے انتخاب لڑ رہے ہیں اس وقت انتخاب لڑنے والوں کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں خال خال ہی کوئی نیا چہرہ نظر آئے گا۔
الیکشن کمیشن نے امیدواروں کی بے رحمانہ سکروٹنی کا جو اعلان کیا تھا اس سے ہر پاکستانی خوش تھا کہ وہ لوگ گزشتہ کئی دہائیوں سے مختلف جماعتوں کے امیدوار بن کر الیکشن لڑتے رہے ہیں اور جن کی ”کارستانیوں“ کا پوری قوم خمیازہ بھگت رہی ہے۔ وہ انتخابی عمل سے باہر ہوں گے لیکن وہ ایک مرتبہ پھر ”عوام کی خدمت“ کے لئے اسمبلیوں میں موجود ہوں گے۔ سیاست کے پرانے کھلاڑی الیکشن کمشن کی سکروٹنی کے ”پل صراط“ کو پھلانگ کر اپنے اپنے حلقوں میں انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ الیکشن کمشن کے بلند بانگ دعوے کیا ہوئے! کیا الیکشن کمشن ٹیکس چوروں‘ قرضے معاف کرانے والوں‘ سرکاری خزانے میں خیانت کرنے والوں کو روک سکا ہے؟ پاکستان کے عوام کو الیکشن کمشن سے جو امیدیں تھیں وہ تو پوری نہیں ہوئیں۔
الیکشن کمشن وقتاً فوقتاً ضابطہ اخلاق کی خلاف وزری کا نوٹس لے کر ایک بیان جاری کرنے تک محدود ہے۔
اب تو پولنگ کے دن میں بارہ دن رہ گئے ہیں۔ 11 مئی کو ہونے والی پولنگ میں وہی تمام سیاستدان کامیاب ہوں گے جن کو ہم برسوں سے اسمبلیوں میں دیکھتے آئے ہیں۔ منتخب سول حکومت میں ہو یا کسی فوجی ڈکٹیٹر کی قائم کی گئی ٹیم جمہوری حکومت یہ سارے حضرات اسمبلیوں میں کسی نہ کسی طرح ”عوام کی خدمت“ کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔ انہیں ”خدمت“ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کی تھیم "Theme" انقلاب اور تبدیلی ہے جو سیاسی رہنما یہ نعرے لگا رہے ہیں انہیں ماضی میں بھی مواقع ملتے رہے ہیں لیکن وہ تبدیلی لانے کی بجائے مروجہ نظام کے ہاتھوں یرغمال بنتے رہے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ صدی کے انقلاب چین اور انقلاب ایران کی طرح کی گئی تبدیلی کا امکان نظر نہیں آتا۔ البتہ اتنا ہو سکتا ہے کہ جس پارٹی کو اکثریت ملے اسی کا وزیراعظم یہ فیصلہ کرے کہ وہ اپنی پارٹی کے وزرائ‘ ارکان اسمبلی‘ پارٹی لیڈروں اور اپنے عزیز و اقارب کے ناجائز کام نہیں کرے گا تو ایک خاموش تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اگر اگلا وزیراعظم قانون کے خلاف اور کسی ناجائز کام کے لئے ”نہ“ کرنا سیکھ لے تو یہ بڑی تبدیلی ہو گی۔ یہی اس لیڈر کا امتحان ہو گا۔ ”اس ”نہ“ کے لئے اسے جو قیمت دینا پڑے گی اس کے لئے اسے تیار رہنا ہو گا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024