مکرمی! اگر اتفاق رائے کا فارمولا ایوب خان بھی پیش نظر رکھتے تو منگلا اور تربیلا ڈیم جیسے منصوبے بھی ابھی تک خواب و خیال ہوتے۔ کیا چین اور بھارت کے حکمرانوں نے عوامی مفاد کے بڑے منصوبوں کے لئے مختلف صوبوں کے اتفاق رائے کا انتظار کیا۔ دریائے برہم پتر تبت کی بلندیوں سے خلیج بنگال تک بھارت اور بنگلہ دیش کے کئی صوبوں کے بیچ میں سے گزرتا ہے اور اس پر ڈیم بنائے گئے۔ بھارت نے ہمارے دریائے چناب پر بگلیار ڈیم، سلال ڈیم سمیت کتنے ڈیم بنالئے۔ راوی کو خشک کردیا ہے۔ جہلم کا پانی بھی جارہا ہے۔ کیا یہ وقت دلیری کے ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی کا نہیں؟ کالا باغ ڈیم کے مسئلہ پر عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے کے مسئلہ پر اور کوئی نہیں تو میاں صاحب کو تو سینہ تان کر سامنے آنا چاہئے۔ عمران خان کو سامنے آنا چاہئے۔ آئی پی پی ایز اور ان کے مغرب میں بیٹھے سرپرستوں اور سندھ اور خیبر پختونخواں میں ڈرانے والے سیاسی ایجنٹوں سے محض اقتدار کے لئے سیاسی تعاون کی بھیک کے نام پر ڈرنا کب تک؟ 11مئی کی چھوٹی قیامت سے پہلے کھل کر یہ اعلان ضروری ہے کہ ملک کو اندھیروں سے بچانے کے لئے ہمارے مستقبل کے لیڈران بزدل نہیں وہ اب سینہ تان کر وہ منصوبے مکمل کریں گے جو ماضی میں غیروں کے مشورے، جھوٹے بہانوں سے ملتوی رکھے گئے۔ گھڑیال منادی دیئے جارہا ہے کہ سابقہ نامہ اعمال پوری سچائی کے ساتھ سامنے لاﺅ۔ جو غلطیاں کی ہیں ان کا آنسوﺅں کے ساتھ اعتراف کرو تو شاید قوم، دکھی قوم معاف کردے۔(یاسر امرتسری، لاہور)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024