ڈاکٹر علی اکبر الازہری
اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کے دشمنوں کی قطار میں دین مخالف قوتوں کی موجودگی اور منظم سازشوں کا فلسفہ تو سمجھ آتا ہے مگر اس مملکت خداداد کی سلامتی کے مسلمہ دشمنوں کی ایک بڑی تعداد جب اسکے حکمرانوں اور اعلیٰ عہدیداروں پر مشتمل نظر آتی ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ جنوبی ایشیاءکے لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کا ثمر اور کروڑوں لوگوں کی خوابوں کا یہ چمن جب اسکے رکھوالوں کے ہاتھوں اجڑتا اور لٹتا نظر آتا ہے تو اسکے بے بس عوام کی بدقسمتی پر افسوس ہوتا ہے۔ دنیا کے اہم ترین جغرافیائی محل وقوع کا حامل اور ہر قسم کی قدرتی نعمتوں سے مالا مال یہ وطن عزیز اپنے ناخداﺅں کے ہاتھوں زخموں سے چور چور آج تاریخ کے دوراہے پر کھڑا کسی مسیحا کا منتظر ہے۔ عوام کا حال یہ ہے کہ وہ اب مسیحائی کے نام پر منافقت اور اقتدار پرستی کرنےوالوں کے گروہوں کو تسلسل سے دیکھ دیکھ کر تھک چکے ہیں اور انہیں کسی پر اعتبار رہا ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی، بدامنی، لاقانونیت، قتل و غارت گری اور کرپشن نے پورے ماحول کو بے یقینی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ ملک میں موجود مقتدر سیاسی قوتیں کھلی منافقت اور مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہیں۔ انہیں صرف ”موجودہ“ اور ”آئندہ“ اقتدار کی فکر ہے۔ انکی ساری سفارتی، سیاسی اور اتحادی کاوشوں کا مدعا فقط ”حکومت“ ہے۔ لیلائے اقتدار کے یہ سب مجنوں دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوکر حکومت سازی میں تمام اصول، ضابطے اور اخلاقیات پس پشت ڈال چکے ہیں۔ پی پی ”قاتل لیگ“ کو گلے لگانے کےلئے تیار ہے جبکہ ”اصحاب قاف“ معقول حصہ مل جانے کی یقین دہانی پر ”سیکورٹی رسک“ اور ”کرپٹ حکومتی ٹولے“ کو آقائے ولی نعمت قرار دینے کےلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ ”ن“ کی قیادت شریف برادران ملک کو درپیش داخلی اور خارجی خطرات سے آنکھیں چرا کر ”اپنی باری“ کے منتظر ہیں۔
ان حالات میں عمران خان کی کال پر پشاور میں ڈرون حملوں کےخلاف دو روزہ دھرنا کئی اعتبار سے ایک مثبت اور قابل تحسین کاوش قرار دی جاسکتی ہے۔ ذیل میں اس کا مختصراً تجزیہ پیش خدمت ہے:
٭ملک پر چھائی ہوئی بزدلی ناامیدی اور مایوسی کی فضاءمیں عمران خان کا یہ دلیرانہ اقدام انکی جرات مندی کا اظہار ہے۔ خصوصاً پشاور اور اسکے گردو نواح میں کھلے عام اس طرح کی عوامی سرگرمی غیر معمولی بات تھی۔ حالانکہ دھرنے سے قبل اور اسکے دوران بھی انہیں خطرات سے ڈرایا گیا تھا۔
٭ملک بھر کے بالعموم اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے نوجوان بالخصوص اس لحاظ سے مایوسی سے دو چار تھے کہ ہر روز امریکہ بلا دریغ ڈرون حملے کرتا ہے اور درجنوں بے گناہ بچوں اور عورتوں کا خون بہہ جاتا ہے۔ کسی کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی۔ پاکستان کے دھڑکتے ہوئے دل لاہور سے جب ایک سیاستدان ہزاروں خواتین و حضرات کےساتھ پشاور کی سڑکوں پر ظلم کےخلاف دھرنے کےلئے جان کو ہتھیلی پر رکھ کر گیا تو یہ گویا اہل پنجاب اور دیگر صوبوں کے عوام کی طرف سے فرض کفایہ تھا جو عمران نے ادا کیا۔
٭پاکستان اور امریکہ کے درمیان گذشتہ کئی سالوں سے جو خفیہ معاہدے ہوئے اور ڈرون حملے شروع ہوئے ان میں ہماری موجودہ اور سابقہ سیاسی اور عسکری قیادت یقینا شامل ہے مگر عوام کے سامنے سچا ہونے کےلئے وہ مسلسل امریکہ سے حملے روکنے کا مطالبہ کرکے ڈراما رچارہے ہیں جن سے نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ بھارت اور افغانستان کے لوگ بھی آگاہ ہوچکے ہیں۔ اس جگ ہنسائی نے ملک کو بے توقیر کردیا ہے۔ ایسے عوامی اجتماعات اور مظاہروں سے صاف ظاہر ہے ڈرون حملے ختم تو نہیں ہوں گے مگر تاریخ میں احتجاج تو ریکارڈ ہوگا۔ جو کسی قوم کی طرف سے نفرت کے اظہار کا کم از کم انداز ہے۔
٭ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دن دیہاڑے پاکستانی نوجوانوں کا قتل اور اس دیدہ دلیری پر امریکی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی نے اہل وطن کو استعماری منافقت کا چہرہ قریب سے دکھادیا ہے۔ نیز حکمرانوں کی منافقت اور بزدلی بھی اب طشت از بام ہوچکی ہے۔ ایسے میں روز بروز بڑھتے ہوئے امریکی ڈرون حملے اور بلیک واٹر کی شرمناک سرگرمیاں ملک کی سلامتی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ حالات کا رونا روتے ہوئے امریکہ کی گود میں بیٹھ کر اسکی امداد کے مزے لوٹنے والوں کو کچھ تو احساس ہوگا کہ یہ کھیل اب ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ اب ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کےلئے دو ٹوک پالیسی اپنانا پڑےگی۔
٭ملک کو موجودہ مسائل کی دلدل سے نکالنے کےلئے اکیلے عمران خان ہر گز کافی نہیں مگر انکی طرح اگر سچے اور کھرے لوگوں کی ایک معقول تعداد سامنے آجائے تو قوم کو اب بھی راہ راست پر لگایا جاسکتا ہے۔ یہ قوم قربانیاں دینا جانتی ہے لیکن اسے اب اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔
٭عمران خان کے خطاب میں سب کچھ تھا مگر ان ”طالبان“ کےلئے مذمت کا ایک لفظ بھی نہیں تھا جو اسلام کے نام پر پاکستان میں موت کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔عمران خان اگر واقعتا ملک میں مثبت تبدیلی کےلئے سرگرم عمل ہیں تو انہیں تمام زمینی حقائق کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ عمران خان اسی طرح استقامت، دور اندیشی اور مستقل مزاجی سے آگے بڑھتے رہے تو انکی آواز ان بہرے ایوانوں تک ضرور پہنچے گی جہاں قوم کی قسمت کے فیصلے لکھے جاتے ہیں۔ بشرطیکہ جاوید ہاشمی کی طرح اہل بصیرت و درد بھی انکے قافلے میں شامل ہو جائیں۔ اس بے امام قوم کا مسئلہ اہل اور مخلص قیادت کا فقدان ہے۔
اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کے دشمنوں کی قطار میں دین مخالف قوتوں کی موجودگی اور منظم سازشوں کا فلسفہ تو سمجھ آتا ہے مگر اس مملکت خداداد کی سلامتی کے مسلمہ دشمنوں کی ایک بڑی تعداد جب اسکے حکمرانوں اور اعلیٰ عہدیداروں پر مشتمل نظر آتی ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ جنوبی ایشیاءکے لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں کا ثمر اور کروڑوں لوگوں کی خوابوں کا یہ چمن جب اسکے رکھوالوں کے ہاتھوں اجڑتا اور لٹتا نظر آتا ہے تو اسکے بے بس عوام کی بدقسمتی پر افسوس ہوتا ہے۔ دنیا کے اہم ترین جغرافیائی محل وقوع کا حامل اور ہر قسم کی قدرتی نعمتوں سے مالا مال یہ وطن عزیز اپنے ناخداﺅں کے ہاتھوں زخموں سے چور چور آج تاریخ کے دوراہے پر کھڑا کسی مسیحا کا منتظر ہے۔ عوام کا حال یہ ہے کہ وہ اب مسیحائی کے نام پر منافقت اور اقتدار پرستی کرنےوالوں کے گروہوں کو تسلسل سے دیکھ دیکھ کر تھک چکے ہیں اور انہیں کسی پر اعتبار رہا ہی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی، بدامنی، لاقانونیت، قتل و غارت گری اور کرپشن نے پورے ماحول کو بے یقینی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ ملک میں موجود مقتدر سیاسی قوتیں کھلی منافقت اور مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہیں۔ انہیں صرف ”موجودہ“ اور ”آئندہ“ اقتدار کی فکر ہے۔ انکی ساری سفارتی، سیاسی اور اتحادی کاوشوں کا مدعا فقط ”حکومت“ ہے۔ لیلائے اقتدار کے یہ سب مجنوں دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوکر حکومت سازی میں تمام اصول، ضابطے اور اخلاقیات پس پشت ڈال چکے ہیں۔ پی پی ”قاتل لیگ“ کو گلے لگانے کےلئے تیار ہے جبکہ ”اصحاب قاف“ معقول حصہ مل جانے کی یقین دہانی پر ”سیکورٹی رسک“ اور ”کرپٹ حکومتی ٹولے“ کو آقائے ولی نعمت قرار دینے کےلئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ ”ن“ کی قیادت شریف برادران ملک کو درپیش داخلی اور خارجی خطرات سے آنکھیں چرا کر ”اپنی باری“ کے منتظر ہیں۔
ان حالات میں عمران خان کی کال پر پشاور میں ڈرون حملوں کےخلاف دو روزہ دھرنا کئی اعتبار سے ایک مثبت اور قابل تحسین کاوش قرار دی جاسکتی ہے۔ ذیل میں اس کا مختصراً تجزیہ پیش خدمت ہے:
٭ملک پر چھائی ہوئی بزدلی ناامیدی اور مایوسی کی فضاءمیں عمران خان کا یہ دلیرانہ اقدام انکی جرات مندی کا اظہار ہے۔ خصوصاً پشاور اور اسکے گردو نواح میں کھلے عام اس طرح کی عوامی سرگرمی غیر معمولی بات تھی۔ حالانکہ دھرنے سے قبل اور اسکے دوران بھی انہیں خطرات سے ڈرایا گیا تھا۔
٭ملک بھر کے بالعموم اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے نوجوان بالخصوص اس لحاظ سے مایوسی سے دو چار تھے کہ ہر روز امریکہ بلا دریغ ڈرون حملے کرتا ہے اور درجنوں بے گناہ بچوں اور عورتوں کا خون بہہ جاتا ہے۔ کسی کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی۔ پاکستان کے دھڑکتے ہوئے دل لاہور سے جب ایک سیاستدان ہزاروں خواتین و حضرات کےساتھ پشاور کی سڑکوں پر ظلم کےخلاف دھرنے کےلئے جان کو ہتھیلی پر رکھ کر گیا تو یہ گویا اہل پنجاب اور دیگر صوبوں کے عوام کی طرف سے فرض کفایہ تھا جو عمران نے ادا کیا۔
٭پاکستان اور امریکہ کے درمیان گذشتہ کئی سالوں سے جو خفیہ معاہدے ہوئے اور ڈرون حملے شروع ہوئے ان میں ہماری موجودہ اور سابقہ سیاسی اور عسکری قیادت یقینا شامل ہے مگر عوام کے سامنے سچا ہونے کےلئے وہ مسلسل امریکہ سے حملے روکنے کا مطالبہ کرکے ڈراما رچارہے ہیں جن سے نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ بھارت اور افغانستان کے لوگ بھی آگاہ ہوچکے ہیں۔ اس جگ ہنسائی نے ملک کو بے توقیر کردیا ہے۔ ایسے عوامی اجتماعات اور مظاہروں سے صاف ظاہر ہے ڈرون حملے ختم تو نہیں ہوں گے مگر تاریخ میں احتجاج تو ریکارڈ ہوگا۔ جو کسی قوم کی طرف سے نفرت کے اظہار کا کم از کم انداز ہے۔
٭ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں دن دیہاڑے پاکستانی نوجوانوں کا قتل اور اس دیدہ دلیری پر امریکی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی نے اہل وطن کو استعماری منافقت کا چہرہ قریب سے دکھادیا ہے۔ نیز حکمرانوں کی منافقت اور بزدلی بھی اب طشت از بام ہوچکی ہے۔ ایسے میں روز بروز بڑھتے ہوئے امریکی ڈرون حملے اور بلیک واٹر کی شرمناک سرگرمیاں ملک کی سلامتی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ حالات کا رونا روتے ہوئے امریکہ کی گود میں بیٹھ کر اسکی امداد کے مزے لوٹنے والوں کو کچھ تو احساس ہوگا کہ یہ کھیل اب ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ اب ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کےلئے دو ٹوک پالیسی اپنانا پڑےگی۔
٭ملک کو موجودہ مسائل کی دلدل سے نکالنے کےلئے اکیلے عمران خان ہر گز کافی نہیں مگر انکی طرح اگر سچے اور کھرے لوگوں کی ایک معقول تعداد سامنے آجائے تو قوم کو اب بھی راہ راست پر لگایا جاسکتا ہے۔ یہ قوم قربانیاں دینا جانتی ہے لیکن اسے اب اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔
٭عمران خان کے خطاب میں سب کچھ تھا مگر ان ”طالبان“ کےلئے مذمت کا ایک لفظ بھی نہیں تھا جو اسلام کے نام پر پاکستان میں موت کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔عمران خان اگر واقعتا ملک میں مثبت تبدیلی کےلئے سرگرم عمل ہیں تو انہیں تمام زمینی حقائق کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ عمران خان اسی طرح استقامت، دور اندیشی اور مستقل مزاجی سے آگے بڑھتے رہے تو انکی آواز ان بہرے ایوانوں تک ضرور پہنچے گی جہاں قوم کی قسمت کے فیصلے لکھے جاتے ہیں۔ بشرطیکہ جاوید ہاشمی کی طرح اہل بصیرت و درد بھی انکے قافلے میں شامل ہو جائیں۔ اس بے امام قوم کا مسئلہ اہل اور مخلص قیادت کا فقدان ہے۔