اسلام آباد (اے پی پی) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے قرار دیا ہے کہ صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ چیف جسٹس کی ایڈوائس کے باوجود کسی جج کا تقرر نہ کریں لیکن تقرر نہ کرنے کے فیصلہ کی وجوہات صدر کیلئے تحریر کرنا لازم ہے۔ یہ ریمارکس انہوں نے پیر کو تین رکنی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج جسٹس افتخار حسین کو مستقل نہ کرنے کے حوالہ سے دائر مقدمہ کی سماعت کے دوران دیئے جس کی مزید سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل شاہ خاور کی جانب سے اس استدعا کے بعد کل تک ملتوی کر دی گئی کہ صدر مملکت سے ان کو ہدایات لینے کیلئے مہلت دی جائے تاکہ وہ اس معاملہ پر عدالت میں تفصیلات بیان کر سکیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس افتخار حسین نے 2005ء میں بطور ایڈیشنل جج تین سال کی مدت پوری کر لی تھی۔ مقدمہ میں وکیل ملک قیوم نے مؤقف اختیار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے علاوہ گورنر پنجاب اور چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس افتخار حسین کی ملازمت مستقل کرنے کے حق میں ایڈوائس دی تھی لیکن صدر نے جسٹس افتخار حسین کو بطور مستقل جج مقرر نہ کیا حالانکہ الجہاد ٹرسٹ کیس کے تناظر میں جج کو مستقل کرنے کے حوالہ سے تمام طریقہ کار مکمل کیا گیا۔ چیف جسٹس افتخار چودھری نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ مقدمہ میں وفاق کی جانب سے جواب داخل کیوں نہیں کیا گیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہیں ایوان صدر سے ہدایات لینے کیلئے ایک دن کی مہلت دی جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہر جگہ لڑنا ضروری تو نہیں ہوتا‘ ٹھیک ہے کہ صدر کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ ایڈوائس کے باوجود کسی جج کا تقرر نہ کریں لیکن ایسا کرتے ہوئے پھر انہیں وجوہات بیان کرنا ہوں گی۔ ان وجوہات کی بنیاد پر ہی عدالت نے جائزہ لینا ہوتا ہے۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ 29 اپریل کی صبح سب پہلے اس مقدمہ کی سماعت کی جائے گی۔
چیف جسٹس
چیف جسٹس