بدھ‘ 10 ربیع الاول 1445ھ ‘ 27 ستمبر 2023ئ

مختصر دورانئے کا حج پیکج متعارف 18 سے 20 دن پر مشتمل ہو گا: وزیر حج
ایک تو ہمارے سرکاری اداروں کو وزارتوں کو عوام سے ٹھٹھول کرنے اور مسخری کرنے میں شاید مزہ آتا ہے جبھی تو وہ ایسے بیان دیتے ہیں۔ اب وزارت امور حج کو ہی دیکھ لیں اس نے بھی لوگوں سے مذاق کا وطیرہ اپنا لیا ہے۔ بھلا یہ بھی ہے کوئی کرنے والی بات۔ وفاقی وزیر حج نے گزشتہ روز مختصر دورانئے کا حج پیکج متعارف کرایا جو 18 سے 20 دن پر مشتمل ہو گا۔ عام طور پر حج سیزن میں یہ دورانیہ 35 تا 50 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اب اس مختصر دورانیہ میں ایام کم رکھے گئے ہیں تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کے اخراجات بھی اسی حساب سے کم ہوتے۔ کجا 50 دن کہاں 20 دن۔ مگر یہاں معاملہ الٹا ہے۔ وزیر موصوف فرماتے ہیں کہ وہ کوشش کریں گے کہ اس مختصر دورانئے والے حج پیکج کے اخراجات جنرل (عام) حج کے اخراجات کے برابر ہوں۔ تو اب کوئی ان سے پوچھے کہ جناب اگر اخراجات میں کمی نہیں کرنی تو پھر یہ ایام میں کمی سے کیا ہو گا۔ اصل خرچہ تو سفری اخراجات ہے۔ اس وقت لاکھوں غریب حج کی تمنا رکھنے کے باوجود صرف اس لیے حجاز مقدس نہیں جا پاتے کہ وہاں آنے جانے کے سفری اخراجات بہت زیادہ ہیں اور غریب تمام عمر کی جوڑ جوڑ کر جمع کی گئی جمع پونجی خرچ کر کے بھی یہ سعادت حاصل نہیں کر سکتا۔ اسکے باوجود وزیر حج ان سے ہی مذاق کر رہے ہیں۔ اب ایسا کرنے سے بہتر تھا کوئی ایسی سکیم لائی ہی نہ جاتی جو خود ایک معمہ ہوتی کہ خرچہ پورا لیا جائے اور دن کم کئے جائیں۔ نگران حکومت بخوبی جانتی ہے کہ رواں سال لوگوں نے مہنگائی کی وجہ سے سرکاری قرعہ اندازی میں کوٹے سے بھی کم درخواستیں جمع کرائیں کیوں کہ اخراجات زیادہ تھے۔ وہ بھلا اب کم مدت کے لیے پوری رقم بھلا کیسے جمع کرائیں گے کہاں سے لائیں گے۔
٭٭٭٭٭
سرکاری رقبے پر قبضے کا الزام خاور مانیکا بیرون ملک جاتے گرفتار
بھلا خاور مانیکا کا کسی سے کیا لینا دینا۔ وہ تو کب کے اپنی سابقہ مرشد سے ناطے توڑ چکے۔ ان کی گرفتاری کی وجہ بھی کوئی اتنی بڑی اربوں کھربوں کی کرپشن نہیں ہے۔ بس یہ چند دکانیں اور ایک شادی ہال ہی ان کے نامہ اعمال کو بھاری بنا رہے ہیں۔ ورنہ اور بھی بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کی موجودہ مرشد جی ہاں ہم نہیں کہہ رہے خود خان صاحب نے انہیں اپنی مرشد کہہ کر ان کا مان سمان بڑھایا ہے، سے کافی فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ وہ تو ابھی تک زیر دام نہیں آئے بے چارے خاور مانیکا کی شامت آگئی۔ جس زمانے میں فارسی کا چلن تھا اعلیٰ امتحانوں میں غالب کے فارسی شعر بھی ترجمہ اور تشریح کے لئے آتے تھے۔ کسی نے اس بلائے جان اشعار پر کیا خوب لکھا تھا۔
”صورت اعمال ماشکل بہ غالب گرفت“
سو اب معلوم نہیں مانیکا جی کیا کہتے ہوں۔ کیوں کہ ان کی سابق اہلیہ کے موجود شوہر نامدار بھی اس وقت جیل میں ہیں۔ اب ان کو بھی جیل نہ سہی حوالات کی سیر ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی سابق بلبل خوش نوا فردوس عاشق اعوان نے اس صورتحال پر غصب کا تبصرہ کیا ہے۔ محترمہ فرماتی ہیں۔”موکلات کو قابو کرتے کرتے مرشد نے اپنے موجودہ اور سابقہ”انہوں“ کو قید کروا دیا۔ معلوم ہوتا ہے اس وقت مرشد کی روحانی طاقتیں عروج پر ہیں“۔ کیا اس کا مطلب ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ تو نہیں کہ اب راستہ صاف ہے اور مرشد خود سیاسی دعوت و ارشاد کی گدی نہ سنبھالیں۔ اگر ایسا ہوا تو بڑے بڑے مرشد خانوادوں کے سیاسی چراغ گل ہو جائیں گے اور ان کے سجادہ نشینوں کے لئے خود اپنی اپنی پگڑی سنبھالنا مشکل ہو جائے گی کیونکہ تحریک انصاف کے کارکن صرف اور صرف اپنے مرشد خاص و مرشد عام کے حکم کی پابندی کرتے ہیں۔ باقی کسی کی انہیں پرواہ نہیں۔ دشمنوں نے یونہی ہوائی اڑاتی ہو گی کے خاور مانیکا بیرون ملک فرار ہو رہے تھے۔ ہو سکتا ہے وہ یونہی سیرسپاٹے کے لئے دبئی کہیں جا رہے ہوں۔ ان کا سیاست سے کیا لینا دینا۔ یہ سیاست ان کی سابقہ”وہ“ جانیں اور ان کے گرفتار شوہر نامدار....
٭٭٭٭٭
مگرمچھوں نے دریا میں ڈوبنے والے کتے کو بچا لیا
جی ہاں یہ محیر العقول واقعہ بھارتی صوبے مہاراشٹر کے دریا ساوتری میں پیش آیا جسے درجنوں افراد نے دیکھا۔ مگرمچھ ایک شکاری آبی جانور ہے جو دریا میں ہاتھ لگنے والے کسی شکار کو نہیں چھوڑتا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہڑپ کر لیتا ہے۔ سچ کہیں تو بے دردی سے نگل لیتا ہے۔ مگر گزشتہ دنوں یہ عجیب بات لوگوں نے دیکھی کہ دریا میں گرے ایک کتے کو ڈوبتا دیکھ کر تین خطرناک مگرمچھ آگے بڑھے مگر انہوں نے حملہ کر کے اسے مار کھانے کی بجائے اسے آہستہ آہستہ کنارے کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا اور یوں اسے باحفاظت کنارے تک پہنچا کر واپس پلٹ آئے۔ سچ کہتے ہیں جنگل کا بھی کوئی اصول ہوتا ہے قانون ہوتا ہے۔ ان دریائی مگرمچھوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ دریا کا بھی کوئی اصول ہوتا ہے شاید قانون بھی ہوتا ہے۔ کاش انسان ہی اس واقعہ سے سبق حاصل کریں اور ایک دوسرے کو مرنے مارنے۔ ان کا حق ہڑپ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔ ایک دوسرے کی مشکلات کم کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔ اس طرح زیادہ نہ سہی کم از کم لوگ بھی زندگی کے اس سمندر میں بے یار و مددگار ڈوبنے سے بچ جائیں گے۔ انسان تو اشرف المخلوقات ہے۔ وہ ان وحشی درندوں سے کچھ سیکھ لے، جنہوں نے مگرمچھوں کو دریا میں شکار کرتے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں یہ کس بے رحمی سے اپنے خوفناک جبڑوں میں شکار کو دبا کر منٹوں میں اس ٹکڑے کر کے نگل جاتے ہیں۔ ہم انسان ہو کر ان وحشی درندوں سے زیادہ بے رحم اور سنگدل کیوں ہو گئے ہیں ہمیں ایک دوسرے پر ترس کیوں نہیں آتا۔ جانور ایک دوسرے پر ترس کھا سکتے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کر رہے۔ یہ واقعہ ہمارے لئے ایک سبق بھی ہے۔
٭٭٭٭٭
ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ دوبارہ لینے کے خلاف پشاور میں طلبہ کا احتجاج
بات تو برحق ہے۔ جو طلبہ نقل کرتے پکڑے گئے ہیں جنہیں موقع پر دھر لیا گیا ہے۔ ان کے خلاف کارروائی کا تو حق ہے انتظامیہ کے پاس مگر یہ سب کو سولی پر لٹکانا زیادتی ہے۔ عام طور پر امتحانات میں یہی ہوتا ہے۔ نقل کرنے والے پکڑے جاتے ہیں۔ ہاں اگر پورا پرچہ آﺅٹ ہوا ہو تو پھر انتظامیہ وہ پرچہ منسوخ کر دیتی ہے۔ اب بھی یہی فارمولا اپنایا جا سکتا ہے تاکہ بدمزدگی نہ ہو۔ اب پشاور میں میڈیکل کے طلبہ احتجاج کر رہے ہیں کہ ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ دوبارہ لینے کی بجائے نقل میں ملوث ایک ہزار طلبہ کے خلاف کارروائی کی جائے جو پکڑے گئے ہیں یوں 46 ہزار طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ نہ کیا جائے۔ ویسے عرض ہے کہ خیبر پی کے میں جس طرح نقل کا رحجان فروغ پا رہا ہے۔ سکولوں سے لے کر کالجوں اور یونیورسٹی تک کے امتحانات میں جو کچھ سوشل میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی طرح یہاں کا نظام تعلیم بھی تیزی سے زوال پذیر ہے۔ گرچہ حالت اتنی بری نہیں مگر اب کی بار جو ایم ڈی کیٹ کے امتحان میں ڈیوائسز کے ذریعے نقل کا معاملہ سامنے آیا ہے وہ ناقابل معافی ہے۔ اگر ہمارے مستقبل کے مسیحا یہی لوگ بنے تو پھر یوں سمجھ لیں کہ یہ ان غیر ذمہ دار افراد کے ہاتھ میں قتل کا لائسنس ہو گا۔ پہلے ہی صحت کے شعبے میں آئے روز ہمارے عجوبہ روزگار ڈاکٹروں کے ہاتھوں جو نت نئی کہانیاں سامنے آ رہی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ کہ یہ ڈاکٹر اب مسیحا کم اور قصائی زیادہ بن چکے ہیں۔ اب یہ نقل لگانے والے بھی اگر اس دوڑ میں شریک ہو گئے تو پھر عوام کا تو خدا ہی حافظ ہو گا۔ حیرت کی بات ہے ان طلبا نے ایف ایس سی کیسے پاس کر لی۔ شاید وہاں بھی یہ اسی طرح کوئی جگاڑ لگا کر پاس ہوئے ہوں گے۔ جگاڑ لگانے میں تو ہم سب ماہر ہی ہیں۔ دعا ہے خداوند کریم ہمارے ہسپتالوں کو مذبح خانے بننے سے محفوظ رکھے۔
٭٭٭٭٭