ہیلو ہاں جی حافظ صاحب خیر تے ہے اج کل کالم نئیں لکھ رہے ،کوئی سیٹنگ تے نئیں ہو گئی،کبھی فون آتا،ہاں جی حافظ صاحب اج تے پھٹے چک دتے جے، کی کمال لکھیا جے، مزہ آ گیا اے، ٹھیک کر رے او تسی، یار اینا نوں کویی پچھن دسن آلا ای نئیں، کرکٹ دا بیڑہ غرق کر دتا نیں، اسد رو¿ف ”نوائے وقتیے“اخبار کا مطالعہ کرتے اور پھر اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے، مختلف حوالوں سے ان کی رائے بھی نوائے وقت میں کھیلوں کے صفحے پر نظر آتی۔ وہ شادباغ میں ہوں یا لاہور کے پوش علاقے میں نوائے وقت کا مطالعہ ان کا معمول تھا۔ کبھی کہتے اے کی ہو ریا اے حافظ صاحب تہاڈے اخبار اچ اج کوئی سپورٹس دی خبر ای نئیں یار اینج تے نہ کرو اسی صبح صبح سپورٹس دا صفحہ ویکھنا ہوندا اے۔ اب نہ اسد رو¿ف کے گھر میں کوئی اتنی دلچسپی سے نوائے وقت پڑھے گا نہ کوئی ایسے فون کرےگا فون کرنے والے اسد رو¿ف تو ہمیشہ کیلئے دنیا سے چلے گئے۔ وہ بہت اچھے کرکٹر، شاندار امپائر اور بہترین انسان تھے آپ انکے ساتھ ہوتے تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ ایشیا کپ میں آصف علی اور افغانستان کے باو¿لر کے مابین ہونے والی تلخ کلامی پر رات گئے انہیں وائس نوٹ کیا تو صبح ساڑھے گیارہ بارہ بجے کے دوران ان کا فون آیا کہنے لگے یار حافظ صاحب تہاڈا میسج بہت لیٹ ویکھیا فیر میں سوچیا صبح فون کراں گا۔ پھر تفصیلی گفتگو ہوئی انہوں نے قوانین کی روشنی میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور یہ میری اسد رو¿ف سے آخری بات چیت تھی۔ پھر جس رات ان کا انتقال ہوا شادباغ سے تعلق رکھنے والے کئی دوستوں نے فون اور میسج کئے لیکن میں کام کرتے کرتے سو چکا تھا۔ صبح میسج دیکھے تو دھچکا لگا کیونکہ اسد رو¿ف وہاں جا چکے تھے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا اور ہم سب نے وہیں جانا ہے۔ ان کی حس مزاح بہت شاندار تھی۔ وہ لگی لپٹی کے بغیر بات کہنے کے عادی تھے۔
وہ شادباغ سے نکلے اور کرکٹ کھیلنے والے دنیا کے بہترین ممالک کے مابین اہم کرکٹ سیریز اور عالمی مقابلوں میں امپائرنگ کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ایک وقت میں علم ڈار اور اسد رو¿ف دنیا میں سب سے نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ آئی سی سی ایلیٹ پینل میں بھارت کے امپائرز نہ ہونے پر سوال کیا تو مسکرا کر کہنے لگے وہ "ڈیلیٹ" پینل میں ہیں۔ اے ایلیٹ پینل اچ آنا کوئی سوکھا کم اے، باکسنگ ڈے ٹیسٹ کرو تے لگ پتہ جاندا اے، انڈیا دے امپائر چنگے نئیں ایس لئی ایلیٹ پینل اچ نظر نئیں آندے۔
وہ شادباغ سے لاہور کے پوش علاقے میں منتقل تو ہو گئے لیکن ان کے اندر شادباغ کی محبت آخری سانس تک موجود رہی۔ ایک وقت میں ان کا شمار دنیا کے بہترین امپائرز میں ہوتا تھا لیکن جب شادباغ پہنچتے ہی تو فوراً بھول جاتے کہ وہ ایک مشہور شخصیت ہیں۔
انتقال سے چند ہفتے قبل وہ اپنے کاروبار کے حوالے خبروں میں رہے۔ ان کا پروفیشنل کیریئر ناخوشگوار انداز میں اختتام پذیر ہوا۔ بہرحال وقت گذر چکا، اسد رو¿ف دنیا سے جا چکے۔ ان کے جنازے میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو آئی سی سی ایلیٹ پینل کے سابق امپائر کے بجائے شادباغ کے اسد رو¿ف کو جانتے تھے۔ نہ موجودہ دور کا کوئی کرکٹر آیا نہ پی سی بی کے افسران میں سے کسی کے پاس اسد رو¿ف کو رخصت کرنے کیلئے وقت تھا۔ اس رویئے پر کیا کہا جا سکتا ہے۔ افسوس ہے ایسے نہیں ہونا چاہیے تھا۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ اسد رو¿ف کے درجات بلند اور خاندان کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024