نواب زادہ نصراللہ خاں : ایک مکمل سیاسی درسگاہ
بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خاں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک بڑا نام ہے جنہوں نے پاکستان کی سیاست میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ انکی ساری زندگی خارزار سیاست، حتیٰ کہ آخری سانسیں بھی ملک میں جمہوریت کی بحالی کیلئے بھرپور جدوجہد میں گزری انکے شب و روز دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مرحوم پیدا ہی پاکستان اور اسکی سیاست کی خدمت کیلئے ہوئے تھے۔ نواب زادہ نصراللہ خاں کے آبائو اجداد غزنی سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ آپکے ننھیال مالیر کوٹلہ کے اور والدہ محترمہ نواب آف مالیر کوٹلہ کی بھتیجی تھیں۔ آپ نومبر 1918ء کو حاکم خان گڑھ آنریری مجسٹریٹ دفعہ 30 نواب سیف اللہ خاں کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خان گڑھ اور مزید تعلیم کیلئے ایچی سن کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ انکے دوسرے بھائی نواب سعید اللہ خاں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ نواب زادہ نصراللہ خاں ایف اے کر چکے تو اچانک انکے والد گرامی کا انتقال ہو گیا اور دونوں بھائیوں کو واپس گھر جانا پڑا۔ نواب زادہ نصر اللہ خاں نے بی اے کرنے کیلئے ملتان کے کالج میں داخلہ لے لیا۔ دوسرا سال آخیر کو پہنچ رہا تھا اور امتحان کی تیاری زور شور سے ہو رہی تھی کہ والدہ صاحبہ نے گھر بلایا اور شادی کر دی اور وہ بی اے کا امتحان نہ دے سکے۔ بڑے بھائی نے زمیندارہ سنبھال لیا اور نواب زادہ نصراللہ خاں خارزار سیاست میں داخل ہو گئے اور ملکی سیاست ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز اپنی خاندانی روایات سے ہٹ کر انگریز کیخلاف سرگرم جماعت آل انڈیا مجلس احرار سے کیا وہ مجلس احرار کے جنرل سیکرٹری رہے۔ امیر شریعت، سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی صحبت ، قربت ، تربیت کے باعث ان میں مذہبی شعور اور سوچ پیدا ہوئی مگر وہ قدامت پرست یا کٹر مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی آجکل کی روشن خیالی کے حامی تھے۔ نواب ابن نواب ہونے کے باوجود ساری زندگی غریب کے حقوق کی پانچ وقت کے نمازی تھے۔ نماز تہجد بھی پڑھا کرتے تھے۔ نماز سے فارغ ہو کر چائے کا ایک گرما گرم کپ پینے کے بعد اخبارات کے تمام ایڈیشن پوری دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ دنیا کے حالات سے باخبر رہنے کیلئے رات بی بی سی کے علاوہ دنیا کے دیگر نشریاتی اداروں سے جاری خبریں اور تبصروں کو سن کر سویا کرتے تھے۔ اخبارات میں کچھ منتخب کالم بھی باقاعدگی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ان کا مزاج شاعرانہ تھا ، لطیفہ گوئی بھی کر لیا کرتے تھے۔ وقت اور سیاست کی مناسبت سے شاعری کرتے تھے اور شاعری میں ان کا تخلص ناصر تھا۔ بابا جمہوریت یہ شعر اکثر سنایا کرتے تھے:
؎رہیں نہ رند ، یہ واعظ کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے، دو ، چار، دس کی بات نہیں
ترکی ٹوپی اور حقہ ، نواب زادہ نصر اللہ خاں کی خاص پہچان تھی ان کے بعد ترکی ٹوپی کسی سیاست دان نے نہیں پہنی۔ سفید شلوار قمیض یا کرتا اور اوپر شیروانی پہنتے تھے یہ لباس بھی انکی شناخت بن گیا تھا انکے دور کی سیاست بڑی جاندار اور باوقار تھی۔ نواب زادہ نصراللہ خاں کا شمار ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے سیاست کو صاف ، شفاف اور باوقار بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور اپنے دامن پر الزام نہیں لگنے دیا۔ انہوں نے ایوب خان کی آمریت سے لیکر مشرف دور تک ، جمہوریت کی بالادستی کیلئے سیاسی جماعتوں کے آپس میں سو اختلافات کے باوجود یک نکاتی ایجنڈے پر تمام سیاسی جماعتوں کو متحد اور اکٹھا کر کے آمروں اور ڈکٹیٹروں کے سامنے لا کھڑا کر دیا۔ اپوزیشن رہنما کا کردار آسان کام نہیں۔ یہ کانٹوں کی سیج ہے جس نے یہ رول اپنایا، اسے بہت کچھ چھوڑنا پڑا، حتیٰ کہ صدارت اور وزارت بھی ، نواب زادہ نصر اللہ خاں نے یہ دونوں عہدے محض اصولوں کی خاطر قربان کر دئیے ۔ ایک دفعہ صدارت کا فیصلہ انکے حق میں ہو چکا تھا لیکن انہوں نے سرسری انٹرویو لینے کیلئے آنیوالے مقتدر حلقوں کے نمائندے کے سامنے 58-2B پر سمجھوتا نہیں کیا اور گھر آئی صدارت واپس چلی گئی۔ پوری سیاسی زندگی میں نواب زادہ نصراللہ خاں، محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بنے۔ نواب زادہ صاحب کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کے زبردست حامی تھے۔ اسلامک آرگنائزیشن کے اجلاس 13 تا 15 دسمبر 1994ء کشمیر کے حق میں تاریخی قرارداد پاس کرائی جس میں کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ نواب زادہ صاحب کی کوششوں کی بدولت برطانیہ کی لیبر پارٹی نے مسئلہ کشمیر کے حل کو اپنے منشور کا حصہ بنایا۔ اپریل 1994ء میں کشمیر کا ز کو اجاگر کرنے کیلئے برطانیہ ، بلجیم، آسٹریا ، ہالینڈ، فرانس ، سویڈن ، سپین اور ترکی کا دورہ کیا۔ ان تمام ممالک میں قدر مشترک جمہوریت تھی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین اور وفد کے ارکان نے ان ممالک میں ارکان پارلیمنٹ کو کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب توجہ دلائی ۔ سویڈن کے دورے کا یہ فائدہ ہوا کہ ارکان پارلیمنٹ نے بھارتی وزیر اعظم کو کشمیر پر احتجاجی مراسلہ بھیجا اور آسٹریا کے صدر نے اس وقت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا اس ملک کی سیاسی پارٹیوں اور ان کے لیڈروں نے خیال ظاہر کیا کہ اگر کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہو سکا تو یہ نئی عالمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے۔ مرحوم پارلیمانی جمہوریت کے داعی اور فوج کی براہ راست یا بلاواسطہ مداخلت کے سخت خلاف تھے۔ وہ صدارتی نظام کے حق میں نہیں تھے۔ زندگی کے آخری ایام اور آخری لمحات میں بھی قائد محترم جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد میں مشرف کیخلاف مصروف تھے کہ دل کی تکلیف کے باعث الشفاء اسلام آباد میں داخل ہوئے ، طبیعت سنبھلی گھر کی تیاری کر رہے تھے کہ پیغام اجل آ گیا۔ 26 اور 27 ستمبر کی درمیانی شب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اللہ جنت میں جگہ دے ، آمین۔