ایک قوم، ایک نصاب اور مہذب لباس
’’ ایک قوم ایک نصاب‘‘ کی بحث ابھی سمٹی نہیں تھی کہ ’’ فیڈرل ڈائیریکٹوریٹ آف ایجوکیشن‘‘ نے ایک مراسلہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا ہے کہ اس محکمہ کے دائرۂ اختیار میں آنیوالے تعلیمی اداروں کے اساتذہ کرام درسگاہوںمیں صاف ستھرا، مناسب اور مہذب لباس پہنیں۔ لباس چاہے انگریزی ہو اور چاہے شلوار قمیض واسکٹ وغیرہ لیکن دو چیزوں کی ممانعت کی گئی ہے۔ ایک تو مرد اور خواتین اساتذہ دونوں ’’جینز‘‘ نہیں پہن سکتے اور دوسرا خواتین کیلئے ٹائٹس (Tights) پہننے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ اس مراسلے کا جاری ہونا تھا کہ ہماری لبرل برگیڈ کے وہ سپہ سالاران جن کو اپنے مسلمان اور دیسی ہونے پر ہر وقت شرمندگی رہتی ہے‘ کے سروں پر گویا بم پھٹ گیا ہے۔ کیا الیکٹرانک میڈیا اور کیا سوشل میڈیا سب کو عورت کی آزادی سلب ہوتی نظر آ رہی ہے ( جانے کیوں ان کو آزادی اور مادر پدر آزدی میں کوئی فرق معلوم نہیں)۔ کچھ چینلز نے تو حد ہی کر دی۔ ایک چینل پر ایک خود ساختہ ماہر تعلیم کسی درسگاہ کا ذکر کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ اس جگہ ان کو کوئی ’’ نارمل ‘‘ لڑکی نظر ہی نہیں آ رہی تھی۔ کسی نے سر پر دوپٹہ یا چادر لے رکھی تھی تو کوئی مکمل پردے میں تھی۔ اس قسم کے ریمارکس میرے نزدیک شدید ’’ بیہودگی‘‘ کے علاوہ کچھ نہیں۔ٹی وی چینل پر بیٹھ کر آپ قوم کی بچیوں کو یہ سبق دینے کی کوشش کیسے کر سکتے ہیں کہ دوپٹہ، چادر یا پردہ کرنیوالی خواتین ’’ایب نارمل‘‘ ہیں ۔ ان مخصوص ماہرین تعلیم اور اینکرز سے تو کوئی امید ہی نہیں لیکن اس قسم کی نشریات کرنیوالے چینلز کیا کر رہے ہیں اور انکا ایجنڈا کیا ہے؟ اور پیمرا کی آنکھ کیوں نہیں کھل رہی؟ اسلام اور دین کی بات رہنے دیں۔ انکے اپنے اصول کیمطابق کسی بھی جگہ کسی بھی قسم کا بیہودہ لباس پہننے کی آزادی ہونی چاہئیے۔ یہ ہر کسی کا ’’انسانی حق اور شخصی آزادی ‘‘ ہے۔ اسی اصول کے مطابق اگر کوئی لڑکی چادر ، دوپٹہ یا پردے کے ساتھ سکول کالج جاتی ہے تو کیا اسے یہ ’’ حق یا شخصی آزادی‘‘ نہیں ملنی چاہئیے؟ ان ’’مخصوص اینکرز اور انکے ماہرین تعلیم‘‘ کو کونسا قانون، کونسی اخلاقیات اور کونسی انسانیت یہ اجازت دیتی ہے کہ ان معصوم بچیوں کو '' Judge" کریں، ’’ایب نارمل‘‘ کہیں۔
بہر کیف بات ہو رہی تھی اساتذہ اکرم کے ’’ ڈریس کوڈ‘‘ کی۔ مزے کی بات ہے کہ متعلقہ اساتذہ میں سے کسی نے اس ڈریس کوڈ پر اعتراض نہیںکیا۔ سب سے پہلی بات کہ خواتین اساتذہ کو انگریزی لباس ’’بشمول پینٹ شرٹ‘‘ وغیرہ پہننے سے منع نہیں کیا گیا۔ صرف ’’ جینز‘‘ کی ممانعت کی گئی ہے اور وہ بھی خواتین اور مرد اساتذہ دونو ں کیلئے۔ کسی نے مردو ں کیلئے تو آواز بلند نہیں کی کہ مردوں کو جینز پہننے سے منع کرنے سے مرد اساتذہ کی شخصی آزادی پر کوئی حرف آیا ہے ، خواتین کے بارے میں پروگرام پر پروگرام ہو رہے ہیں۔ حالانکہ جینز کو دنیا میں کہیں بھی فارمل یا دفاتر کا لباس نہیں سمجھا جاتا۔ انہی لوگوں سے پوچھا جائے تو یہ کہیں گے کہ آپ کسی بھی انٹر ویو یا دفتر ملازمت پر جینز پہن کر نہ جائیں ( تمام دنیا میں ایسا ہی سمجھا جاتا ہے)۔ اور تو اور کئی پارٹیوں ، فنکشنز اور ہوٹلز میں ڈریس کوڈ ہوتا ہے اور جینز کی ممانعت ہوتی ہے۔ اور تو اور اسکی سب سے بڑی مثال لاہور کا جم خانہ کلب ہے۔ جہاں آپ نے کھانا کھانا تو ڈریس کوڈ کے مطابق جینز ، ٹی شرٹ یا واسکٹ کے بغیر شلوار قمیض پہن کر جائیں گے تو بھوکے ہی واپس آئیں گے۔ آج تک کسی لبرل نے اس سب پر اعتراض نہیں کیا ۔ اگر یہی اصول کسی تعلیمی ادارے میں نافذ کرنے کی بات ہو ( جو کہ در حقیقت ’’ فارمل‘‘ جگہ ہے) تو ان سب کی چیخیں آسمان تک پہنچ رہی ہیں۔ دوسری چیز جس کی ممانعت کی گئی ہے وہ خواتین کا ’’ٹائٹس‘‘ پہننا ہے۔ ویسے تو ٹائٹس یورپ میں گھڑ سواری کا روائتی مردانہ لباس ہے، اسکے علاوہ مغربی ممالک میں ڈانس ، سکیٹنگ وغیرہ کے دوران بھی اس سے ملتا جلتا لباس پہنا جاتا ہے، لیکن ٹائٹس کے نام پر پاکستان میں جو کچھ پہنا جاتا ہے وہ در اصل زیر جامہ کی ایک قسم ہے ۔
نصاب میں سب سے زیادہ اعتراض ’’ اسلامیات‘‘ کو بطور مضمون پڑھانے پر ہے اور لباس کی بات کی گئی تو سب سے زیادہ زور اس بات پرکہ بیہودگی کو فروغ ملنا چاہئیے۔ اعتراضات کرنیوالے بھی وہی ہیں اور اعتراض کیا بھی صرف ان باتوں پر جا رہا ہے جو یا تو ہماری مشرقی روایات اور معاشرت سے جڑی ہیں یا ہمارے دین سے۔ دونوں صورتوں میں ہر ذی شعور کو نظر آ رہا ہے کہ اس قسم کے اعتراضات کرنیوالے گنتی کے چند لوگ ہیں لیکن انکی آوازیں ہمارے ملک کی پچانوے فیصد آبادی سے زیادہ بلند ہیں کیونکہ ان کے پاس بیرونی امداد اور وسائل کی صورت میں شور و غوغا بلند کرنے کا سامان موجود ہے۔ پچانوے فیصد میں نے اس لیے کہا کیونکہ حال ہی میں ہونیوالے ایک سروے کے مطابق ہمارے ملک کے پچانوے فیصد والدین نے ایک قوم ایک نصاب میں اسلامیات کو بطور مضمون شامل کرنے کی حمایت کی ہے۔ کیا ان پچانوے فیصد والدین اور انکے بچوں کے کوئی حقوق نہیں؟ انکی کوئی شخصی آزادی نہیں جو روایات اور مذہب کو اپنی زندگیوں میں شامل رکھنا چاہتے ہیں؟ جو اپنے بچوں کو مسلمان بنانا چاہتے ہیں انکی اخلاقی تربیت کرنا چاہتے ہیں۔ جن کو اپنے مسلمان اور پاکستانی ہونے پر کوئی شرمندگی ہے نہ احساس کمتری؟ جو چیزوں کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ عقل اور فہم کی بنیاد پر کرتے ہیں اس بات پر نہیں کہ یہ حکم گوری چمڑی کے منہ سے نکلا ہے‘ اس لیے اسکا درست ہونا اور اس پر عمل کرنا اور اس کے حق میں بے مطلب، گھٹیا لیکن بلند چیخ و پکار کرنا ضروری ہے۔