اسلام کو چھوڑ کر مغربی تہذیب اپنانے کے نتائج
موٹر وے پر ایک خاتون کے ساتھ پیش آنے والے شرمناک اور اندوہناک حادثہ نے پوری قوم کے سر شرم سے جھکا دئیے۔ حکمرانوں کی نااہلی ناتجربہ کاری اور بیوروکریسی اور حفاظت جان و مال عزت و آبرو کے محافظوں کی محاسبہ سے بے خوفی آشکارا کر دی۔ اب حکمران اور ساری قوم لکیر پیٹ رہی ہے اور روایتی مذمتی بیانات جاری ہو رہے ہیں‘ احتجاج ہو رہا ہے ۔جنسی آوارگی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ۔ اک آگ ہے کہ ہر سو لگی ہوئی ہے۔ آج کے اخبار میں میں زیادتی کے پانچ کیس شائع ہوئے ہیں۔ بہاولپور ‘رحیم یارخان کرائم رپورٹر بتلاتے ہیں ۔2 لڑکیوں سمیت تین خواتین سے زیادتی ہوئی ‘ شاہ جمال ضلع مظفر گڑھ خاتون اغوا اور زیادتی‘کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ امام مسجد کی لڑکے سے زیادتی‘ کہروڑپکا اوباش کی خاتون سے زیادتی ‘ ترنڈہ پناہ اوباش کی یتیم دوشیزہ سے زیادتی اسکے علاوہ نہ جانے اور کتنی اس قسم کی قبیح وارداتیں ہوئی ہونگی جن کی خبریں شائع نہ ہو سکی ہونگی‘ نمائندگان کے علم میںنہ آئی ہونگی یا متاثرین نے مارے شرم کے چپ سادھ لی ہو گی اسکی وجہ پولیس کا نامعقول رویہ بھی ہے کہ وہ اس قسم کی فریاد سنتے ہی پہلے تو متاثرہ لڑکی یا عورت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں اورپھر متاثرہ خاتون اور اسکا خاندان سوائے تھانے کی حاضریوں اور علاقہ میں رسوائی کے کچھ بھی حاصل نہیں کر پاتا۔
سیاست کا کھیل کھیلنے والے وڈیروں ‘ امیروں‘ سرداروں ‘ ممبران اسمبلی و بلدیات اور انکے مٹھی چاپی کرنیوالے دو نمبری علاقائی گماشتوں کی روٹی روزی اور نچلی سطح کی سرداری ان غریبوں کے دم سے ہے۔ وارداتیں کروانا‘ جرائم کی ترغیب دینا‘ لڑانا بھڑانا‘ گروپ تبدیلی کرنا یہ سارے کھیل ان گماشتوں کے کھیل ہیں‘ پولیس کے ذریعہ غریبوںکو نچوڑتے ہیں اور پھروکیل اپنی مرضی کا حصہ وصول کرنے اور کچہری میں اپنا وجود منواتے ہیں ۔ کچہریوں میں آج کل بہت تھوڑے وکلاء نیک نام خاندانوں کے چشم و چراغ صحیح قانونی وکالت کرتے ہیں ۔ میل ملاپ والے پولیس کے یار وکیل تو وکالت کرنے کے دوسرے سال کارخرید لیتے ہیں ۔ان کا خاندان ان چند سال قبل خواہ درجہ چہارم کا ملازم رہا ہو یا کسی وڈیرے کا نجی ملازم اور مزارع رہا ہو مگر جب بیٹا قدم قدم پر کھلے ہوئے لا ء کالجوں سے وکالت کا امتحان پاس کر لیتا ہے تو اسکے پر نکل آتے ہیں اسے اپنا خاندان اور ماضی بھول جاتا ہے پھر وہ سردار ‘ خان صاحب اور پھنے خان ہوتا ہے اسکے ڈیرے پر رونق لگتی ہے۔ جنسی آوارگی اور ہوس کا صرف ایک ہی علاج ہے صرف سزا ہی علاج نہیں قرآن و حدیث علاج ہے۔ عرب کا معاشرہ بھی آج شراب رقص و سرور ‘ جوا اور سود میں جکڑا ہوا تھا ۔ قرآن کی تعلیمات اور نبی کریمؐ کے اسوہ حسنہ نے انقلاب پیدا کر دیا ۔عورت نے حیا کی چادر اوڑھ لی ‘ مرد نے ہر خاتون کو ماں بیٹی اور بہن کے روپ میں دیکھا اور نظریں جھکا لیں۔ وہ معاشرہ عربی دان تھا‘ قرآن عربی میں تھا‘ لوگ قرآن کا پیغام سمجھتے تھے مگر آج کا عام پڑھا لکھا تو کیا ‘عالم تک بھی اس سے ناواقف ہے شاید ۔