معذور …
وہ اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے اپنی گود سے سرکتے ذہنی اور جسمانی طور پر معذور بچے کو بار بار سمیٹ کر اکھٹا کر رہی تھی ۔۔۔۔ میں بچوں کے سمپل لیتے ہوئے کچھ دور کھڑا اسے کن انکھیوں سے دیکھ رہا تھا۔ اپنے صحت مند چاک و چوبند بچوں کے ساتھ وہاں موجود مائیں اس عورت کو جانچ کی نظر سے دیکھ رہی تھیں۔۔۔ اس نے کون سا گناہ کیا ہو گا جو اس کے ساتھ ایسا ہوا ؟ ۔۔۔جو بھی غلطی اس سے ہوئی اب سزا تو عمر بھر بھگتنی ہے۔ معلوم نہیں کیسا کردار ہے اس کا ؟۔۔۔جب حرکتیں ایسی ہوں گی تو عذاب تو آئے گا۔۔ ۔ اب تو ان جیسے بچوں کا علاج بھی ہمارے با کمال بچوں کے ساتھ ہو گا ؟ وہ بے حد صبر سے سینے پر نیزے کی نوک کی طرح چبھنے والے ان الفاظ کو روئی کے گالوں کی طرح سمیٹ کر ایک طرف کرتی جا رہی تھی اور اب تو ایسا لگتا تھا کو وہ ایسا کرتے کرتے تھک گئی ہے اور ۔۔ ٹوٹنے والی ہے۔
آزمائش اور سزا کے بیچ میں فرق کرنے کی قوت کب سے ہمار ے اندر آ گئی؟انسان بننے میں ہی کتنا عرصہ لگ جاتا ہے پھر یہ خود ساختہ زمینی خدا بننے کی جرأت ہم میں کیسے پیدا ہو ئی؟ اس بے بس اور بہادر ماں کے سامنے اس کے بچے نے انگنت بار اپنا توازن کھویا اور اس نے انگنت بار بڑھ کر اس کو سہارا دیا ۔ آخر ماں کے خوبصورت ایثار کی یہ خوبصورت حد کسی کو نظر کیوں نہیں آتی؟ معلوم نہیں معذور وہ بچہ ہے یا ہماری سوچ؟ میں نے آخری بار اس کی جانب دیکھا اور مجھے محسوس ہوا کہ ہر بار اپنے بچے کو سمیٹتے ہوئے وہ اپنی بکھرتی ہوئی ذات کو بھی سمیٹ لیتی ہے ۔ میں نے اپنی نم آنکھیں بند کر لیں۔