سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک مرتبہ پھر کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ اپنی محبت، لگاؤ ،وابستگی اور مضبوط رشتے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر ہماری روح کا حصہ ہے اور ہم کشمیریوں سے محبت کرتے ہیں۔ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم کشمیری بہن بھائیوں کو مایوس نہیں کرینگے۔ کشمیر محض جغرافیائی مسئلہ نہیں ہے۔ بھارت جان بوجھ کر آزاد کشمیر کے بیگناہ شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
سپہ سالار نے مختصر الفاظ میں جامع پیغام دے دیا ہے۔ وہ جنہیں دنیا کے امن کی فکر لاحق رہتی ہے یا وہ جو جنگ کی ہولناکیوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ پیغام ان سب قوتوں کے لیے ہے جو افواج پاکستان کی کشمیر کے ساتھ وابستگی کو سمجھتے ہیں۔ جنرل باجوہ نے کشمیر کو روح کا حصہ قرار دے کر یہ بات دنیا کو بتا دی ہے کہ ہماری روح پر حملہ کیا گیا ہے اور ہم اس کا بدلہ لیں گے۔ جب کسی کی روح کو ہی قید کر لیا جائے تو اس کے پاس جینے کے لیے کیا بچتا ہے۔ جنرل باجوہ نے یہ کہہ کر کہ ہم کشمیری بہن بھائیوں کو مایوس نہیں کریں گے بھارتی افواج کے ساتھ بھگوڑے اور ڈرپوک نریندرا مودی اور اس کے ٹولے کو خبردار کر دیا ہے کہ اگر انہوں نے ظلم بند نہ کیا اور کشمیریوں کو ان کا حق نہ دیا تو پھر ہم اپنے کشمیری بہن بھائیوں کو مایوس نہیں کریں گے۔ چونکہ کشمیری مشکل حالات میں پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں اور کشمیر میں ظلم وبربریت کا جو دور جاری ہے اس میں مظلوم و محصور کشمیریوں کا پاکستان کی طرف دیکھنا فطری امر ہے۔ کشمیری بھارتی مظالم سے نجات چاہتے ہیں اور یہ نجات بات چیت کے ذریعے تو مل نہیں سکتی تو پھر ایک ہی راستہ بچتا ہے اور وہ جنگ کا راستہ ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے مہذب الفاظ میں جامع پیغام سرحد پار اور دنیا کو پہنچا دیا ہے کہ ہماری روح اور محبت کو نہ چھیڑا جائے۔ ہماری محبت کے راستے میں روڑے نہ اٹکائے جائیں، ہماری روح کو قید نہ کیا جائے اگر یہ سب ہو گا تو اس کا ردعمل سامنے آئے گا اور پھر اس ردعمل کے لیے تیار رہیے گا۔
قارئین کرام یہ ہے وہ پیغام جو آرمی چیف نے بھارت کے حکمرانوں اور ان کی فوج کو دیا ہے۔ انہوں نے بہت ہی مناسب الفاظ میں اپنا پیغام دشمن کے کانوں تک پہنچایا ہے۔ ان الفاظ میں کشمیریوں کے ساتھ محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور اسی محبت میں آنے والے دنوں میں کشمیریوں کے لیے ہر قدم اٹھایا جائے گا۔
الفاظ کا انتخاب، چناؤ اور ادائیگی ماضی، حال اور مستقبل کا پتہ دیتی ہے۔ بالخصوص اہم عہدے پر موجود جب کوئی شخص اپنے خیالات کا اظہار کرے تو اسے پیغام بھی سمجھا جاتا ہے، اسے پالیسی بھی قرار دیا جاتا ہے اور اسی بیان کے تناظر میں مستقبل کے فیصلے بھی ہوتے ہیں۔ ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو جنگ کے حالات ہیں اور یہ حالات پاکستان نے پیدا نہیں کیے یہ حالات علاقے سے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے خاتمے اور صرف ہندوؤں کو زندہ رہنے کا حق دینے کی ظالمانہ اورمتعصب سوچ کے حامل بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی اور ان کے حواریوں نے پیدا کیے ہیں۔ اب ان حالات کے بعد اگر کوئی تباہی ہوتی ہے تو نقصان کا ذمہ دار بھی حالات پیدا کرنیوالا ہی ہو گا۔
بھارت کے اقدامات پر اب تک دنیا نے وہ ردعمل نہیں دیا جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر آنا چاہیے تھا۔ ہمیں اس ردعمل کی زیادہ پرواہ بھی نہیں ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی اور دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی کے خاتمے کے لیے اب کم از کم ایک مرتبہ تو حتمی طور ہتھیاروں کا استعمال ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس کے بغیر دونوں ممالک کے مابین حالات کا معمول پر آنا اب ناممکن ہو چکا ہے۔ کیوں کہ کشمیر کی حالت قابل رحم ہے۔۔
لاک ڈاؤن،کرفیو، گرفتاریاں، تشدد، زندگی مشکل تر، حالات انتہائی سخت، آنسو گیس کی شیلنگ، پیلٹ گنوں کی فائرنگ، دنیا سے منقطع رابطہ یہ کشمیر کا منظر نامہ ہے۔ اس منظر نامے، بھارتی فوج کے مظالم اور نریندرا مودی کی ہندو برتری کی خواہش کو دنیا کے سامنے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان بہترین انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ عمران خان نے امریکہ میں کشمیر کے لیے بہترین انداز میں خدمات انجام دی ہیں انہوں نے سوئی ہوئی بے حس ، متعصب دنیا کو جگانے اور کشمیریوں کا ان کے حقوق دلانے کے لیے مقدمہ کشمیر بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ اس سے بہتر پیغام دنیا کو نہیں پہنچایا جا سکتا تھا۔ اتنی شدت اور مستقل مزاجی کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو آج تک کسی حکمران نے دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا۔ عمران خان اپنا کام کر رہے ہیں اور وہ یہ کام بہترین انداز میں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کو بھی جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے کہ اگر اقوام متحدہ بھی نہیں بولے گا تو کون بولے گا۔
کشمیر پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کا اندازہ دنیا کو ہے لیکن سب اپنا آپ بچا رہے ہیں۔ کچھ کو کاروباری فوائد نے روک رکھا ہے تو کچھ مذہبی بنیاد پر بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں اور اس کا سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ امریکی صدر جانتے ہیں کہ یہ صورتحال خطرناک ہے یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار ثالثی کی پیشکش کو دہراتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ جیسے جیسے دن بڑھیں گے کشیدگی میں شدت آئے گی۔ بھارت باز نہیں آئے گا، وہ جنگی جنون میں مبتلا ہے۔ اسے اپنی بڑی مارکیٹ اور بڑی بڑی سرمایہ کاری کا زعم ہے لیکن وہ بھول چکا ہے کہ یہ تمام تجارتی معاہدے اس وقت ہی فائدہ دے سکیں گے جب امن ہو گا اور دنیا کو گھومنے پھرنے کی آزادی ہو گی۔ جب بھارت ہمارے سپہ سالار کی روح کو اذیت دے گا ان کی محبت کو تنگ کرے گا تو پھر اس کا جواب بھی آئے گا۔ اور وہ جواب مذمت کا نہیں مرمت کا ہو گا۔ وہ جواب افواج پاکستان دیں گے اس عزم کے ساتھ دیں گے جس کا اظہار آج جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیا ہے۔ دنیا اگر ان الفاظ کو نہیں سمجھنا چاہتی نہ سمجھے لیکن دنیا یہ بھی یاد رکھے کہ پاکستان کی فوج ایٹمی طاقت ہے۔ ملک کا۔بچہ بچہ کشمیر کے ساتھ اپنی محبت نبھانے کے لیے تیار ہے۔ دنیا جنگ سے بچنا چاہتی ہے تو مسئلہ کشمیر کشمیریوں کی خواہش اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کروا دیا جائے۔ یہی پرامن دنیا کے فائدے میں ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38