دنیا بھر میں اسلام کیخلاف باتیں کی جاتی ہیں اسلام پر’’ الزام تراشی‘‘ کی جاتی ہے ،لیکن جو لوگ’’ قریب ‘‘سے اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اسلا م ہی ایک’’ سچا مذہب‘‘ ہے ۔نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملوں کے خلاف مسلمانوں کا ’’طرز عمل‘‘ دیکھ کر ہر کسی نے انکی ستائش کی ، اسلام کی حقانیت کی وجہ سے ہی آئے روز لاکھوں لوگ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں ،تعصب ،عناد،بغض اور عداوت کو ایک طرف رکھ کر جس کسی نے بھی اسلام کا مطالعہ کیا اس نے ہی اسلام کو قبول کیا ،در حقیقت کچھ لو گوں کو اس قدر’’ اسلام فوبیا‘‘ ہو چکا ہے کہ وہ ہر چیز کا’’ا لزام‘‘ اسلام پر عائد کرتے ہیں ،کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہاں پر بھی صرف اس لیے مسلمانوں کو نشانہ بنایاجا رہا ہے کہ وہاں پر’’ بسنے ‘‘والے مسلمان ہیں ۔وزیر اعظم عمران خان کا کہنا بجا ہے کہ اگر پچاس دنوں سے عیسائی یا یہودی اس طرح ’’محصور‘‘ ہوتے تو کیا دنیا کا پھر بھی یہی ’’طرز عمل‘‘ ہونا تھا ۔جو اس وقت کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ ہے ۔ترک صدر رجب طیب اردوان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کر کے پاک ترک دوستی کا حق ادا کیا ہے ،جبکہ باقی ممالک جو انسانی حقوق کی باتیں کرتے’’ تھکتے ‘‘نہیں ،انھوں نے اس پر ’’چپ سادھ‘‘ رکھی ہے ۔ترکی نے ہر معاملے میں خاص طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔ ترک صدر کا کہنا بجا ہے کہ جنوبی ایشیا میں ’’استحکام و خوشحالی‘‘ کو مسئلہ کشمیر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔لیکن وہ اقوام عالم جس کی آنکھوں پر کاروبار کی ’’پٹی لپٹی ‘‘ہوئی ہے وہ اس بات کو سمجھ نہیں رہی ۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود 80 لاکھ افراد محصور ہیں، اس کے باوجود پاکستان محفوظ مستقبل کیلئے مسئلہ کشمیر کا جنگ کے بجائے مذاکرات سے حل لازمی قرار دے رہا ہے ۔دنیا کو اس وقت سے ڈرنا چاہیے جب 80 لاکھ کشمیری اپنے حقو ق کیلئے اسلحہ اٹھانے پر مجبور ہو جائیں ۔اگر اقوام عالم نے اسی ہی روش اختیار کیے رکھی تو پھر وہ دن دور نہیں جب کشمیر بزور طاقت اپنا حق لینے کیلیے اٹھ کھڑے ہوں گے ۔امریک صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی ہے لیکن بھارت کشمیر کے پر امن حل کی جانب آہی نہیں رہا ۔ کشمیر کا معاملہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے اب اس کا کوئی بہتر حل سامنے آنا ہی چاہیے ۔بہتر حل یہی ہو سکتا ہے کہ کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق اس کا حل نکالا جائے ۔امریکی صدر اگر مودی کو اپنادوست کہتے ہیں تو انھیں اپنے دوست کا بات بھی منوانی چاہیے ۔وہ کیسادوست ہے جو دوست کی مشکل کو اپنی مشکل نہیں سمجھ رہا ۔وزیراعظم نے عمران خان کا کہنا بجا ہے کہ اقوامِ متحدہ کو کشمیر کے مسئلے میں مداخلت کرنی چاہیے۔کیونکہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں’’ خونریزی‘‘ کا خطرہ ہے اب عالمی برادری چپ نہیں رہنا چاہیے ۔اگر اس معاملے میں اقوام متحدہ نہیں بولے گا تو کون بولے گا؟ کچھ ممالک انڈیا کے ساتھ اپنے مفادات کی وجہ سے شاید اس مسئلے پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتے۔لیکن اگر دونوں ایٹمی طاقتیں ’’جنگ و جدل‘‘ پر تیار ہو گئیں تو پھر ان کے مفادات کا تحفظ کون کریگا ؟با لا ٓخر اقوامِ متحدہ کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کم کرنے کیلئے مداخلت کرنی ہی پڑے گی کیونکہ اس کے بغیر کوئی حل ہی نہیں ۔کشمیر کئی دہائیوں سے بد ترین تشدد اور’’ پر آشوب‘‘ حالات سے دوچار ہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیریوں کی صریحا نسل کشی کرتے ہوئے ڈیموگرافک تبدیلیاں کرنے کی مسلسل کوششیں جارہی ہیں،کشمیر پر بھارتی فوج کا برسوںسے جاری تسلط یہاں کی ثقافت، زندگی او ر کشمیر کی معیشت کی شکستہ حالی کا باعث بن رہا ہے۔1947 میں تقسیم کے بعد ہندوستان کیلئے کشمیر کے نصف حصے پر قبضے کی راہ ہموار ہوگئی۔ اس طویل ترین قبضہ نے کشمیری عوام کی سماجی اور معاشی زندگی پر بدترین اثرات نتائج مرتب کئے. تاریخی لحاظ سے، بھارت اور پاکستان کے درمیان جاری اس طویل تنازعہ کے حل کیلئے اور کشمیریوں کو انکے بنیادی انسانی حقوق ، حق بقا اور حق خود ارادیت دینے کیلئے درجنوں قراردادیں پیش کی گئیں۔لیکن انکا کوئی بھی حل سامنے نہیں آیا۔ تنازعات کے حل کیلئے اس جامع نقطہ نظر میں، پاکستان آزاد جموں اور کشمیرکی تاریخ، محل وقوع، ثقافت، طرز زندگی، معیشت اور ثقافتی ورثے کے مختلف پہلوؤں کو یکجا کرسکتا ہے۔ جو اسکے علاوہ، تنازعے کے حل میں ایک "سماجی اور اقتصادی نمونے کے امکانات " کیساتھ ساتھ عالمی برادری میں آزاد جموں و کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی حوالے سے ثقافتی نسبت پر بھی زور دے گا۔ہمالیہ کے پہاڑوں سے پیرپنجال تک پھیلے ہوئے آزاد کشمیر کے دلکش’’ ارضی خدوخال‘‘ سیاحوں کیلئے کشش کا باعث ہوسکتے ہیں جو شاندار مناظر سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔کشمیر قدرتی اور ثقافتی مقامات سے نوازا گیا ہے جن پر نہ صرف یہاں کی سیاحت کا دارومدار ہے بلکہ یہ کشمیرکے بیانیہ کو مضبوط کرنے میں بھی معاون ہو سکتے ہیں۔اقوام عالم کو اس وقت اپنے تمام تر مفادات کو ایک طرف رکھ کر صرف انسانیت کیلئے کشمیریوں کا ساتھ دینا چاہیے ۔اگر اس میں مزید تاخیر ہوئی تو پھر پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ،نفرتوں کے تدارک کے لیے ہم سب کو کردار ادا کرنا چاہیے ،اگر ہم نفرتوں کی بجائے محبت کو بڑھائیں تو آدھے سے زیادہ مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024