تعلیمی اداروں میں منشیات کے فروغ نے پولیس و انسداد منشیات کے لیے کام کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ طلبہ میں آئس سمیت دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں جب سول سوسائٹی اور میڈیا کی جانب سے آواز اٹھائی جائے تو کچھ وقت کے لیے اینٹی نارکوٹکس فورس، محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول اور محکمہ سوشل ویلفیئر فعال ہو جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وطنِ عزیز میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تقریباً ڈیڑھ کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں منشیات کی روک تھام کے لئے باقاعدہ قوانین موجود ہیں جن کے تحت منشیات فروشی میں ملوث متعدد افراد کو گرفتار کر کے عدالتوں کے ذریعے سزائیں ہوتی رہتی ہیں مگر آج یہ تلخ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں نشے کا استعمال عام روش بن چکی ہے ۔ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں اس لعنت کی روک تھام کے لیے عوام اکثر واویلا کرتی رہی ہے اور اب شکر ہے کہ پنجاب حکومت نے صوبے میں تعلیمی اداروں کے باہر منشیات فروخت کرنے والے عناصر کیخلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاون کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ مکروہ دھندے میں ملوث عناصر کیخلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے اور ان عناصر سے سختی سے نمٹا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں کے باہر منشیات فروخت کرنے والے عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں، ہماری نسل کی رگوں میں زہر گھولنے والوں کی جگہ جیل میں ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ نشہ سپلائی کرنے والی بڑی مچھلیوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے تب ہی سارے صوبے کو منشیات سے پاک کرنے کے مشن میںکامیابی ہوسکتی ہے۔ نشہ کے استعمال سے سینکڑوں لوگ کینسر، ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب کہ نوجوان نشہ حاصل کرنے کے لیے چوریاں اور ڈاکے ڈالنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔
منشیات کے کاروبار میں ملوث اسمگلرز کی پشت پر اثر و رسوخ کے حامل افراد ہوتے ہیں جو قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے ہی اپنے ایجنٹوں کی ضمانت پر رہائی کا بندوبست کر لیتے ہیں۔ بعض افراد کے مطابق منشیات فروش یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلباء کو نشانہ بنا کر نشے کی لت لگا رہے ہیں جب کہ پولیس اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی نااہلی کے باعث ڈرگ مافیا اپنے کاروبار کو وسعت دینے میں کامیاب ہو رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس ڈرگ مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی بجائے چھوٹے موٹے منشیات فروشوں کو پکڑ کر اپنی کارکردگی دکھانے کیلئے مقدمات درج کر لیتی ہے لیکن انکے پس پشت کار فرما بااثر افراد پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ یہی وجوہات ہیں جن سے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم طلباء میں منشیات کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ کئی تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز کا عملہ شراب کی فروخت میں ملوث بتایا جاتا ہے۔ طلباء و طالبات ویک اینڈ پر نائٹ پارٹیوں میں شرکت کرتے ہیں جہاں شراب اور دیگر منشیات کا استعمال عام ہے۔ یہاں چرس اور افیون کے علاوہ تمام نشہ آوراشیاء کا استعمال بھی ہوتا ہے اور اس کے ساتھ طلباء و طالبات میں آئس نام کا ایک نیا نشہ عام ہو چکا ہے۔ مختلف کیفوں اور کلبوں میں حقے کے ذریعے شیشہ کا نشہ کرنا اونچی سوسائٹی کا فیشن بن چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں یہ منشیات پہنچتی کس طرح ہے؟ اس بارے میں طلباء کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کے گارڈز منشیات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر کوئی گارڈ پکڑا بھی جائے تو چند دن کے بعد وہ اپنی ڈیوٹی پر واپس آ جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک استاد کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس کو چاہئے کہ وہ تمام تعلیمی اداروں کے باہر خصوصاً چھٹی کے اوقات میں غیر متعلقہ افراد کے کھڑے ہونے پر پابندی عائد کرے۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں کے ہر گیٹ پر کیمرے لگانے چاہئیں۔ اینٹی نارکوٹکس فورس سمیت دیگر اداروں کو فعال بنانے کی ضرور ت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام منشیات کے بدنام سوداگروں کے کوائف حاصل کرکے تمام تھانوں کے انچارجز کو انہیں فوری طور پر قانون کے کٹہرے میں لانے کی ہدایت کریں۔
پنجاب حکومت کا یہ بہت احسن اقدام ہے لیکن اس سلسلے میں سول سوسائٹی اور والدین کا فعال کردار بہت اہمیت کا حامل ہو گا۔ بچے نشے میں یا کسی برائی میں اسی وقت پڑتے ہیں جب انہیں کوئی مسئلہ ہو۔ اس کے ساتھ نوجوانوں کو مصروف رکھنے کے لیے سکول و کالج کی سطح پر صحت مند مقابلے بھی منعقد کرواتے رہنے چاہئیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38