اب یکسر بدلا ہوا ٹرمپ کا کہتا ہے کہ امریکی قوم پہلے ہی طویل جنگوں میں بے پناہ جانی ومالی نقصان بھگت چکی ہے، اب تحمل کا اظہار ناگزیر ہے۔
ٹرمپ آج خود کو 20 جون والی جگہ کھڑا دیکھ رہے ہیں جنگ کی آگ بھڑکانے کے بعد اس سے دامن بچالینے سے کیا نتائج جنم لیں گے، ان سوالات نے ٹرمپ کو بے چین کررکھا ہے۔ سعودی تنصیبات پر حملے کے بعد ٹرمپ پر دبائو میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ سعودی تنصیبات پر حملے سے معاملہ پہلے سے بھی سنگین ہوگیا ہے۔ اب پھر وہ ایران پر چڑھ دوڑنے امکانات جائزہ لینے کے ساتھ وزیراعظم عمران سے ایران کے ساتھ ثالثی کرانے کی درخواست کر رہے ہیں ایران کا بحران پینٹاگون کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ امریکی افواج کی ہیبت زمین بوس چکی ہے ٹیکنالوجی یافتہ پٹریاٹ دفاعی نظام ناکامی کے بعد خجل خوار ہو چکا ہے اب فیصلہ درپیش ہے کہ وہ کس انداز میں دشمن کے خلاف آگے بڑھتے ہیں،وائٹ ہاوس، پینٹاگون، فوجی وسفارتی اعلیٰ حکام، ارکان کانگریس اور صدارتی مشیروں سے ہونے والی گفتگو کی بنیاد پر کہا جاسکتاہے ۔ ٹرمپ کی جھنجھلاہٹ بڑھ رہی ہے چند دن پہلے ٹرمپ نے کہا تھا ’’جنگ کا اعلان میں ابھی رپورٹرز کے ساتھ یہاں کھڑے کھڑے کرسکتا ہوں۔ پہلے جب میں نے جنگ کا فیصلہ کیاتو سب نے چلانا شروع کردیا کہ یہ ہم سب کو مروائے گا۔ میرے لئے یہ آسان ترین کام ہے کہ ایران کے خلاف کارروائی کا حکم دے دوں۔ جس دن میں نے ایسا کیا وہ امریکہ اور ایران کے لئے بہت ہی برا دن ہوگا۔‘‘
امریکی ڈرون مارگرائے جانے کے چندگھنٹے بعد امریکہ میں صبح سات بجے اس وقت کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن، صدارتی ٹیم کے دیگر ارکان کے ہمراہ ناشتے پر جمع ہوئے۔ مائیک پومپیو اور جنرل جوزف ڈنفورڈ موجودتھے۔ سیکریٹری دفاع پیٹرک شناہان اور ان کے جانشین مارک ایسپر بھی براجمان تھے۔ ایران پر حملے کی متعدد تجاویز پر تبادلہ خیال کیاگیا جو خلیج عمان میں میزائل بردار ایرانی کشتیوں پر ہونا تھا۔ پھر امریکیوں نے ایرانیوں کو بحری جہاز خالی کرنے کا حکم دینا تھا جس کی وڈیو بنائی جانی تھی اور پھر بم یا میزائل سے کشی کو تباہ کرکے غرق کرنا تھا۔ اس کے نتیجہ میں کوئی جانی نقصان نہیں ہونا تھا کہ عراق اور افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کو تہہ و تیغ کر دینے والے سفاک امریکیوں کا کمانڈر ان چیف صرف 150 ایرانی فوجیوں کی لاشوں کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہتا تھا۔ مارگرائے جانیوالے تیرہ کروڑ ڈالر کے امریکی ڈرون کو امریکی ناک کا مسئلہ بنالیا گیا تھا جان بولٹن اور مائیک پومپیو چاہتے تھے کہ ایک خالی ایرانی کشتی تباہ کرکے ڈرون کا بدلہ نہیں لیا جاسکتا۔ ایران کے اندر حملہ کیا جائے بولٹن نے ممکنہ اہداف کی فہرست پیش کی۔ تین ایرانی میزائل اڈوں اور راڈارز کے گرد سرخ نشان لگادیا گیا ۔ امریکی صدر اوران کے مشیروں کا مخصوص کمرے میں دن گیارہ بجے دوبارہ اجلاس ہوا۔ ایک گھنٹہ مغزکھپائی جاری رہی۔ مختلف حکمت عملی امکانات زیرغور آئے۔ چارحکام نے تین اہداف کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں 150افراد کی ہلاکت خدشہ ظاہر کیا۔ صدر ٹرمپ نے یہ بات کتنی سنی اور کتنی سمجھی، یہ حکام پر واضح نہ ہوسکا۔
کمرے سے نکلنے پر ٹرمپ کی سکیورٹی ٹیم کو یقین تھا کہ ایران پر حملے کیلئے صدر کو قائل کرلیا ہے۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے آتش وبارود برسانے والے بحری بیڑوںاور طیاروں کی نقل وحرکت نے دنیا کو پیغام دیا کہ ایران پر حملہ ہوا کہ ہوا۔ تیاری تھی کہ امریکی وقت کے مطابق شام نوبجے کے قریب ایران پر حملہ ہوجائیگا۔ ہمارے خطے کے لحاظ سے یہ صبح کاذب کا وقت ہوتا۔امریکی افواج کے سالار جنرل ڈنفورڈ مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے پیش نظر مزید امریکی افواج کو خطے میں بھجوانے کے انتظامات کر رہے تھے جن کو خدشہ تھا امریکی افواج کو اس خطے میں بھجوانے کا فائدہ چین کو ہوگا۔
دوسری جانب ٹرمپ اپنے شکوک کو رفع کرنے میں مصروف عمل تھے۔ ان کو یہ اطلاعات پہنچ چکی تھیں کہ ایرانی کمانڈر نے امریکی ڈرون کو مارگرانے کا فیصلہ ازخود کیا تھا یہ ایرانی حکومت یا رہبر معظم خامنائی کے حکم پر نہیں ہوا۔ سکیورٹی ٹیم کے ساتھ ملاقات کے بعد ٹرمپ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو سے ملے ۔ ٹرمپ نے رپورٹرز کو بتایا کہ ’’سچ پوچھیں تو یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ گلوبل ہاک دانستہ گرایا گیا میرے خیال میں یہ کوئی ایسا شخص ہوسکتا ہے جو بہت بڑا احمق اور بے وقوف ہو گا اسی تنازعے پر برطرف ہونیوالے ‘‘ جان بولٹن کا موقف تھا کہ یہ بات بے معنی ہے کہ ایران کی اعلی قیادت یا حکومت نے یہ حکم دیا ہے یا نہیں لیکن یہ بات ٹرمپ کے نزدیک اہمیت رکھتی تھی کہ جنگ سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ ٹرمپ کے پسندیدہ اینکر نے بروقت انہیں یاد دلایا کہ وہ نئی جنگیں شروع کرنے کیلئے نہیں بلکہ امریکہ کو جنگوں سے نکالنے کے نعرے لگا کر صدر بنے تھے ۔ سہہ پہر تین بجے درجن بھر کانگریس ارکان امریکی صدر کے خصوصی کمرے میں موجود تھے۔ ان میں حامی اور مخالف دونوں طرف کے ارکان شامل تھے۔ ایسا منظر کم ہی نظرآتا ہے۔ ملاقات کے بعد ری پبلکن ارکان آدم سمتھ اور طاقتور ہاوس آرمڈسروسز کمیٹی کے چیئرمین ڈی واش کا کہنا تھا کہ صدر کسی طویل المدتی تنازعہ میں الجھنے کے بارے میں حقیقتا پریشان ہیں۔
امریکی قانون کے مطابق کمانڈر انچیف کے طورپر امریکی صدر جب کسی حملے کا حکم دیتا ہے تو ہلاکتوں کا قانون جواز دینا پڑتا ہے۔ امریکی صدر کی قانونی ٹیم نے پینٹاگون کے وکلا سے اس کی تفصیل مانگی تھی۔ بعض نے کہا کہ کارلسن جیسے اتحادیوں نے ٹرمپ سے کہا ہے کہ ایران پر حملہ کرنے سے اس کا اگلا الیکشن تباہ ہوجائے گا۔ صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر ایران پر حملہ نہ کرنے کا حکم جاری کر دیا پینس، مائیک پومپیو اور جان بولٹن جیسے مشیروں سے مشورہ بھی پسند نہ کیا ۔ طیارہ بردار بحری جہاز’ابراہم لنکن’ کے کنٹرول روم ریئر ایڈمرل مائیکل ایف بولے (Michael F. Boyle) بے چینی سے ایران پر حملہ کرنے کے احکامات کا انتظار کر رہے تھے کنٹرول روم کے پینلز پر سبز بتیاں ٹمٹا رہی تھیں ٹام ہاک میزائیل ایران میں اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کیلئے پھڑ پھڑا رہے تھے لیکن آخری حکم نہ آنا تھا نہ آیا فضا میں موجود بمبار طیاروں کو واپس بلا لیا گیا ٹام ہاک میزائیلوں کو سر نگوں کر دیا گیا۔ اور اب وزیر اعظم عمران خان ٹرمپ کی درخواست پر امریکہ ایران تنازعہ حل کرنے کیلئے ثالثی کرائیں گے ۔ (ختم شد)
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38