بلاشبہ پاکستان نے دہشت گردی کا سب سے زیادہ سامنا کیا ہے اور کم از کم 80 ہزار پاکستانی معصوم شہری دہشت گردی میں جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ دہشت گرد غیرمسلم ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اسلام تو سلامتی اور امن کا نام ہے۔ اسلام انسان تو انسان جانوروں‘ حیوانات اور درختوں سے بھی حسن سلوک کا داعی ہے۔ دہشت گردی اصل میں کفر اور اسلام کی جنگ ہے اور یہ امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کی طرف سے لگائی گئی ہے۔ کون مسلمان نہیں جانتا کہ جنت دوزخ کا خالق و مالک صرف رب واحد ہے۔ یہ دونوں انسان کے مومن ہونے کے ساتھ اعمال صالحہ یا اعمال بد کی مرہون منت ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا تو حکم ہے جب دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دیا کرو۔ حدیث پاک ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ ایک دہشت گرد جو مساجد‘ نماز جنازہ اور ہسپتالوں میں دہشت گردی سے سینکڑوں انسانوں کی جان لیتا ہے تو پھر وہ خود کو مسلمان کہے تو یہ سوچنے سمجھنے والی بات ہے۔ مسلمانوں میں منافقین شروع سے موجود رہے ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ وہ ہماری صفوں میں آج بھی موجود ہیں۔ عوام کے علاوہ حکمران ہی ایسے ہیں جو خود تو مسلمان کہلواتے ہیں مگر غیر مسلم حکمرانوں کے وفادار ہیں۔ دہشت گردی میں اس قدر نقصان اٹھانے کے باوجود امریکہ کا یا کسی اور غیرمسلم ملک کا ہم سے ”ڈومور“ کا مطالبہ کرنا صرف اور صرف پاکستان اور اسلام دشمنی کے زمرے میں آتا ہے حالانکہ پاکستان آرمی نے ”ضرب عضب“ اور ”ردالفساد“ کے تحت جس جرا¿ت ‘ بہادری سے ان شرپسند عناصر کا قلع قمع کیا ہے دنیا میں کہیں بھی ایسی مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملتی جس میں ہمارے سینکڑوں فوجی جوان‘ آفیسرز بھی شہید ہوچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارت 70 سال سے کشمیر میں مظالم ڈھائے جارہا ہے‘ ہزاروں کشمیری مسلمان نہ صرف شہید ہوئے بلکہ اندھے ناکارہ ہوچکے ہیں۔ اس کی طرف دنیا کیوں غور نہیں کرتی؟ ہم دہشت گردی میں ہزاروں شہریوں کی شہادت کے علاوہ اس جنگ میں نہ صرف سینکڑوں فوجی بھی قربان کرچکے اور ہزاروں دہشت گردوں کو واصل جہنم بھی کرچکے ہیں پھر بھی ہم سے ”ڈومور“ کا مطالبہ کیوں؟ اس کی ساری ذمہ داری ہماری سیاسی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے جو نہ تو دنیا کو کشمیر میں ہونے والے مظالم دکھا سکے اور نہ دہشت گردی میں ہونے والی کامیابیوں کو واضح کرسکے۔ ہمارے حکمرانوں کو نہ ہی ملک سے محبت اور نہ ہی عوام سے کوئی سروکار انہیں تو بس لوٹ مار کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں آتا۔ زرداری صاحب جو آج کل بڑے ”پوتر“ بن کر تقاریر کررہے ہیں پاکستانی تاریخ میں ہر لحاظ سے موصوف کا دور سیاہ ترین دور رہا‘ ملکی ادارے برباد کردیئے گئے‘ اتحادیوں کے ساتھ مل کر ملک کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا گیا۔ زرداری صاحب نے دہشت گردی کیخلاف یا کشمیر کے بارے کیا کارنامے سرانجام دیئے ذرا عوام کو بتائیں۔ حکومت کا کام زبانی جمع خرچ کرنا نہیں عملی اقدامات اٹھانا ہوتا ہے پھر نوازشریف بطور وزیراعظم آئے جو کہ اب عدالت عظمیٰ سے نااہل ہوچکے ہیں انہوں نے بھی چار سال صرف لاحاصل یا ذاتی مفادات کیلئے غیرملکی دوروں پر خرچ کئے‘ چار سال وزیر خارجہ رکھنا گوارا نہ کیا جو مناسب سفارت کاری کرتا اور دوسرے ممالک میں پاکستان کی ہر فورم پر وکالت کرتا۔ یہ ملک چار سال بغیر وزیر خارجہ کے چلتا رہا کچھ عرصہ قبل چند وزراءپر مشتمل وفد کشمیر کے بارے دوسرے ملکوں میں بھیجا گیا۔ انہوں نے کیا حاصل کیا؟ ایک ”مولانا“ کو ہر بار کشمیر کمیٹی کا چیئرمین لگا دیا جاتا ہے ان سے پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی کہ جناب آپ کشمیر کے بارے کیا خدمات سرانجام دے چکے ہیں‘ قوم کو بھی بتا دیجئے۔ بس ”مولانا“ ہر حکومت کا ساتھ دیتے ہیں خود کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بننا اور حکومت من پسند وزارتیں لینا ہی ان کی ”خدمات“ ہیں۔ کلبھوشن کو پھانسی دینے میں تاخیر کیوں ہے؟ ہمارے سابق وزیراعظم تو کلبھوشن کا نام بھی زبان پر لانا گناہ سمجھتے تھے۔ بھارت کلبھوشن کے مسئلے کو عالمی عدالت انصاف میں لے گیا ہے ہوسکتا ہے ہماری بھارت نواز حکومت نے بھارت کو یہ راہ دکھائی ہو جس طرح امریکہ کو ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں ”دِیت“ کی راہ بتائی گئی۔ ہماری سیاسی حکومتیں 70 سال میں کشمیریوں کا مسئلہ عالمی عدالت انصاف میں کیوں نہیں لے جاسکیں ۔ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا بھارت کے ساتھ ہر قسم کے روابط منقطع کیوں نہیں کردیئے جاتے۔ بہرحال 6 ستمبر کو جنرل قمر باجوہ نے دنیا کو واضح اور دوٹوک پیغام دے دیا ہے کہ ہم تو بہت کرچکے اب دنیا ڈومور کرے۔ عالمی طاقتیں ہاتھ مضبوط نہیں کرسکتیں تو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار بھی نہ ٹھہرائیں۔ آرمی چیف نے یہ بھی دنیا کو باور کرایا کہ سی پیک علاقے میں امن کی حمایت ہے۔ اگر پاکستان ناکام ہوا تو خطہ مکمل عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا اور یہ کہ پاکستانی فوج قوم کی حمایت اور تعاون کے بغیر کچھ نہیں اور جنرل باجوہ نے واضح کہا کہ جہاد کسی فرد واحد کا نہیں صرف ریاست کا حق ہے۔ جنرل باجوہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں کافی نہیں کیا تو پھر کسی نے بھی کچھ نہیں کیا۔ دشمن جان لے ہم کٹ مریں گے لیکن ایک ایک انچ کا دفاع کریں گے۔ بھارت سمجھ لے کہ کشمیریوں کی جدوجہد دراندازی کی محتاج نہیں۔ دشمن کی شکست ہماری جیت کا وقت آگیا۔ آرمی چیف نے مزید کہا کہ بلوچستان میں بھارتی مداخلت سب کے سامنے ہے‘ بھٹکے لوگوں کی لگائی آگ کی قیمت پورا پاکستان ادا کررہا ہے۔ جنرل باجوہ نے شہداءکو سلام پیش کیا اور بڑی بہادری سے دنیا کو واضح اور دوٹوک پیغام دے کر ہر پاکستانی کے جذبات کی حقیقی معنوں میں ترجمانی کی۔
پاکستان زندہ باد