تحریک آزادی کشمیر نازک ترین مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور یہ مسئلہ عالمی سطح پر پوری شدت سے اٹھ چکا ہے ۔ وزیراعظم پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران کشمیر پر دو ٹوک موقف اپنایا ۔ یہ اس لئے ہے کہ پورا مقبوضہ کشمیر مفلوج ہو چکا ہے اور بغیر کسی وقفے کے 70 ویں روز سے کر فیوکی حالت جاری ہے ۔ شہادتوں کا سلسلہ بھی پہلے سے زیادہ ہے اور حالیہ کرفیو کے دوران اب تک 105 کشمیری جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ کشمیریوں کا اب نعرہ ہے ’’آزادی یا موت۔۔۔۔ اب نہیں تو کبھی نہیں‘‘ انسانی حقوق کی پامالی فلسطین سے بھی زیادہ مقبوضہ کشمیر میں ہورہی ہے۔ بھارت اضطراب میں ہے اور خود بھارت کے اندر سے بھارتی قیادت کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
کشمیر کے پس منظر میں بھارت نے بلوچستان میں مداخلت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ بھارت، امریکہ، افغانستان اور بعض ہمارے دوست ممالک بغض چین کے پس منظر میں اکٹھے ہو چکے ہیں اور پاکستان کے خلاف جارحیت کا زبردست خطرہ ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھارت بات چیت کی ناکامی کی صورت میں محدود جنگ چھیڑ دے۔افسوس کہ ایسے نازک موقع پر جہاں پاکستان میں اتحاد و امن اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے اس کے برعکس کام ہورہا ہے یہ بات اظہر من الشّمس سے کہ پاکستان میں امن ، سیاسی استحکام اور اتحاد سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اور الحاق پاکستان کی تحریک زور پکڑتی ہے اور بھارت بھی بات چیت کے لئے آمادہ نظر آتا ہے اور اگر یہاں حالات و گرگوں ہوں تو وہاں مایوسی پھیلتی ہے ۔ ہماری سیاسی پارٹیاں بد قسمتی سے محاز آرائی کی سیاست کر رہی ہیں ۔ایک چیخ و پکار ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیںدے رہی۔ ہم ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہے ہیں اور TORs طے نہیں پارہے۔ بحث اس بات پر ہورہی ہے کہ پہلے احتساب کس کا ہو۔ سارے کا سارا زور 2013ء کے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کو قبل از وقت گرانا اور اقتدار پر براجمان ہونا ہے۔ اسمبلیوں اور سینٹ کی موجودگی میں سڑکوں پر مارچ کی باتیں ہورہی ہیں۔ حتیٰ کہ مذہبی جماعتیں بھی نان ایشوز پر دھرنوں کی دھمکیاں رے رہی ہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ یہ سب کچھ ذاتی مفادات اور ذاتیـ عناد کی بناء پر ہورہا ہے۔ قوم و ملک کے مفاد میں نہیں۔ نہ ہی جذبہ حب الوطنی کے تحت۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس نازک موڑ پر ہم اپنے اختلافات وقتی طور پر ہی سہی بھلا کر قومی مفاد کو مدنظر رکھتے اورحب الوطنی کا مظاہرہ کرتے اور جس طرح 1965ء کی جنگ میں اکٹھے ہوئے آج بھی ہوتے ۔ آج تین طرح کے چیلنج ہیں۔ ایک کشمیر کی حالیہ تحریک دوسرا سرحدوں پر خطرات اور تیسرادہشت گردی کی وجہ سے حالتِ جنگ۔ کشمیری بھی بھارت کے ساتھ حالت جنگ میں ہیںاور ہم کشمیریوں کے ساتھ اخلاقی، سفارتی اور سیاسی طور پر ان کی حمایت کے پابند ہیں۔ اس کے لئے ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرتے لیکن بدقسمتی سے آج بھی ہم اسی طرح باہم دست وگریباں ہیں جس طرح 1958 ء کے مارشل لاء سے قبل تھے جب نہروونے کہا تھا کہ میں اتنے پا جامے نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیر اعظم بدل جاتے ہیں۔ میں کس سے بات کروں۔کشمیر پر بہر حال کوئی فیصلہ ہونا باقی ہے کیونکہ کشمیر تقسیم ہند کا نا مکمل ایجنڈا ہے جسے سات دہائیوں سے غصب کیا جاتا رہا ہے اور رائے دہی کی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر بے اعتنائی کرتے کرتے اب یہ کہا جارہا ہے کہ یہ قراردادیں فرسودہ ہو چکی ہیں لیکن پاکستان اور کشمیر یوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور جب سے اب تک کشمیریوں کی جدوجہد جاری ہے جسے 1985 ء میں ایک نئی جہت ملی اور اب 2016 ء میں اور خصوصاً برہان وانی کی شہادت کے بعد یہ تحریک نئی بلندیوں کو چھورہی ہے۔ اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری اس جدوجہد میں اپنا خون دے چکے ہیں اور اب تحریک میں شدت آ چکی ہے اور بغیر کسی دراندازی کے انڈین فورسز پر حملے ہورہے ہیں۔آیئے کشمیریوں سے لفظی یکجہتی کی رِٹ سے نکل کر عملی قدم اُٹھائیں۔ اٹھیں اور ملک و قوم کی خاطر دھرنوں، ریلیوں کی سیاست کچھ عرصہ کے لئے ترک کر کے تنازعہ کشمیر پر توجہ کریں کہ شاید پھر یہ موقع نصیب نہ ہو۔اس بار تحریک اندر سے اٹھی ہے اور بغیر کسی بیرونی امداد اور تعاون کے کامیابی سے جاری ہے۔ ایک ایک شہید کے جنازے میں کرفیو کے باوجود ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ افراد شرکت کرتے ہیں اور ہر جلوس کے بعد شہادتوں کی خبریں آتی ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024