اب وقت بالکل نہیں رہا شیطانی قوتیں اذہان کو متاثر کر رہی ہیں۔ یہ لمحہ بڑا صبر آزما اور بڑی آزمائش کا ہے۔ بہت کچھ سینے میں امڈ رہا ہے لیکن لب کشائی کا یارا نہیں۔ سفلی قوتیں ناتواں جسد مسلم سے نبردآزمائی میں مصروف ان کے بچے کچے ایمان کو بھی نوچ رہی ہیں۔ کبھی توہین رسالت تو کبھی قرآن پاک کی بے حرمتی اور اب ناموس رسالت پر شرمناک فلم۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟ یہ سب ہمارے ساتھ کیوں ہو رہا ہے؟ اس لئے کہ ہم نے ارشاد باری تعالیٰ کے احکامات کے مطابق گھوڑے تیار رکھنے پر کان نہیں دھرے بلکہ اپنی سرمستیوں میں غافل رہے۔ یہود و نصاریٰ کو دشمن قرار دیا گیا ہے۔ ہم ان سے پیار کی پینگیں بڑھاتے ہیں۔ امن کی آشا کے گیت کاتے ہوئے رقص کرتے ہیں۔ چند آبروباختہ اور حسن و مینا کی سرمستیوں میں ڈوبی ہوئی نازنینوںاورکچھ مے کشوں کو ہند یاترا میں بھیج کر امن کا پیامبر ہونے کی دلیل دی جاتی ہے۔ ہمیں اپنے کردار و عمل کا خود احتساب کرنا چاہیے جو اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے بجائے غیروں کے ٹکڑوں پر چند ٹکے ملنے کو اپنی فتح گردانتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے جب بھی غیرت مسلم نے اللہ کی رسی کو تھاما اور اپنے قوت بازو پر بھروسہ کیا، کامیاب و کامران ہوئے ۔
دنیا کے نقشہ پر لاالہٰ الااللہ کے نعروں کی گونج میں ابھرنے والے پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے کا منصوبہ پہلے ہی بن چکا تھا۔جس کے نتیجے میں بھارتی آبی جارحیت کا پلان مرحلہ وار شروع ہوا۔ یہ انہی کلمہ گو قائدین اولین کا اللہ پر بھروسہ اور دست بازو پر یقین تھا کہ یکم اپریل 1948کو بھارت کی پہلی آبی جارحیت کے مقابلہ میں ہیڈ مرالہ اور بی آر بی کینال کو اپنے وسائل سے مکمل کیا۔ قائد اعظم نے کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دیا کہ یہیں سے ہماری سر سبز وادیوں کو پانی ملتا ہے چنانچہ جہاد کشمیر کے ذریعے کشمیر کا ایک حصہ آزاد کروایا۔ قائد اعظم چل بسے۔ اس وقت سے لے کر آج تک بھارتی آبی جارحیت کے آگے کسی نے بند نہیں باندھا۔ دنیا بھر میں آبی ماہرین کالا باغ ڈیم کو دنیا کا نمبر ون ڈیم قرار دیتے ہیں۔ ڈیم کا بیڈ اونچا ہونے کی وجہ سے سلٹ جمع ہونے کا کوئی خطرہ نہ ہے۔ 18 ارب ڈالرسالانہ معیشت کے اس ڈیم میں ابتدائی طور پر 3600 میگا واٹ بجلی پیدا ہو سکتی ہے۔ بعد ازاں اسکی 4500 میگا واٹ تک بڑھائی جا سکتی ہے جس سے نہ صرف بجلی کا شارٹ فال دور ہو سکتا ہے بلکہ 7 ملین ایکڑ فٹ پانی کے ذخائر سے چاروں صوبوں کی تقریباً 25 لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہوگی۔ یہ بات نوٹ کی جائے کہ صوبہ خیبر PK کے جنوبی 5 اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، بنوں، لکی مروت اور کرک کی آبپاشی کالا باغ ڈیم کے علاوہ کسی اور ڈیم سے ممکن نہیں چنانچہ خیبر PK میں جو لوگ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کر رہے ہیں وہ خیبر PK کے سب سے بڑے دشمن ہیں وہ ان جنوبی 5 اضلاع کو سیراب نہیں دیکھنا چاہتے جبکہ نوشہرہ کو کالا باغ ڈیم سے کوئی خطرہ نہیں۔ نوشہرہ کی سطح سمندر سے بلندی 961 فٹ ہے جبکہ کالا باغ ڈیم کی جھیل مکمل بھر دی جائے تو اسکی سطح سمندر سے بلندی 915 فٹ ہوگی۔ اس طرح 46 فٹ اونچی جگہ کے ڈوبنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسکے علاوہ ایک بات نوٹ کرنے کی ہے۔ کالا باغ ڈیم سے ملنے والی رائلٹی میں سے صوبہ خیبر PK کو بھی حصہ ملے گا جس سے وہ اپنی معاشی حالت بہتر بنا سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی مخافت کرنے والے صوبہ خیبر PK کے دشمن ہیں۔ کالا باغ ڈیم کے بننے سے سندھ کی بنجر زمینوں کو فائدہ ہوگا۔ اسکی 8 لاکھ ایکڑ اراضی براہ راست سیراب ہوگی۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے 25 لاکھ ایکڑ اراضی کو سیراب کیا جا سکتا ہے۔ اس سے کشمور، جیکب آباد، شہداد کوٹ، دادو، گھوٹکی، سکھر، خیر پور میرس، نواب شاہ، سانگھڑ، میرپور خاص اور تھرپارکر کے اضلاع مستفید ہونگے۔ اس واضح حقیقت کو دیکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے سندھ کی دھرتی کے دشمن ہیں۔ بلوچستان Indus Basin کی Ripparian سٹیٹ نہ ہے۔ وفاق پاکستان کا حصہ ہونے کی وجہ سے اسکی ترقی کےلئے دریائے سندھ میںسے پانی دیا جاتا ہے۔ Water Accord 1991 کے مطابق نئے ڈیم بننے سے بلوچستان کو 12% حصہ ملے گا۔ جس سے اسکے شمال مشرقی اضلاع کی تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ ایکڑ اراضی براہ راست سیراب ہوگی۔ جن علاقوں میں پینے کا پانی بھی میسر نہیں، وہاں جوہڑوں میں انسان اور جانور اکٹھے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ انہیں آب حیات میسر آئےگا،خوشحالی آئےگی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنےوالے بلوچستان کے دشمن ہیں۔
تقسیم پاک و ہند سے پہلے پنجاب سونے کی چڑیا کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ مکار ہندو نے انگریز سے مل کر آبی جارحیت کی سازش تیار کی۔ اسے دریائے راوی، بیاس اور ستلج سے محروم کرنے کےلئے ریڈ کلف سازش میں چار اضلاع ہڑپ کئے۔ کشمیر پر بھی انہی اضلاع کے راستے سے قبضہ کیا۔ انڈس واٹر ٹریٹی 1960 کے مطابق ان تینوں دریاو¿ں کا پانی بھارت کو دےدیا گیا۔ جس سے پاکستان کی زرخیز ترین وادی کے 19 اضلاع براہ راست متاثر ہوئے بلکہ یہ کہا جائے کہ پاکستان کی زرعی پیداوار متاثر ہوئی۔ پچھلے تین سالوں میں فصل کے وقت قدرت کی مہربانیوں کے طفیل باران رحمت ہوئی مگر پھر بھی پاکستان میں 30% کم پیداوار کا ہدف حاصل کیا گیا۔ اس وقت بھارتی آبی جارحیت نکتہ عروج پر ہے۔ اگر کالا باغ ڈیم نہ بنا تو پنجاب کے بنجر ہونے کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ پنجاب کے 19 اضلاع میں زیر زمین پانی تقریباً 100 فٹ نیچے جا چکا ہے۔ ہر سال زیر زمین پانی کی سطح 4/5 فٹ نیچے گر رہی ہے۔ اسی طرح میانوالی اور خوشاب کے اضلاع میں جہاں ٹیوب ویلوں کے ذریعے کاشت کی جاتی ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ صرف 10 سال بعد یہاں سوکھا پڑےگا۔ زیر زمین پانی کے سوتے خشک ہو جائینگے اور ان اضلاع کی معیشت چولستان اور تھر کی معیشت کی طرح دم توڑ جائےگی۔ یہ حقائق دیکھ کر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والے پنجاب کے دشمن ہیں۔
تربیلا ڈیم کی جھیل میں سلٹ بھرنے کی وجہ سے اس میں پانی جمع کرنے کی صلاحیت ہر سال مارچ تک رہ گئی ہے۔ چند سالوں میں یہ صلاحیت فروری تک رہ جائےگی۔ یہ گندم کا سیزن ہوتا ہے۔ پنجاب میں آخری پانی اپریل میں لگتا ہے لیکن پانی نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب کے اضلاع آخری پانی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ فی الوقت سندھ میں اسکا کوئی نقصان نہیں لیکن جب یہ صلاحیت فروری تک رہ جائےگی تو جنوبی پنجاب میں مارچ اور اپریل کا پانی نہ ہونے کی وجہ سے گندم کی فصل بالکل تباہ ہو جائےگی جبکہ سندھ میں مارچ کا پانی نہ ہونے کی وجہ سے زبردست قحط کا سامنا کرنا پڑے گا (کیونکہ سندھ میں ٹیوب ویل استعمال نہیں کئے جاتے، ان کا مکمل انحصار نہری پانی پر ہوتا ہے)۔ اگر کالا باغ ڈیم کو جنگی بنیادوں پر تعمیر کیا جائے تو ڈیم صرف تین سال میں بن سکتا ہے جبکہ صرف ایک سال میں جھیل بنائی جا سکتی ہے۔ اس طرح مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرنے کےلئے کالا باغ ڈیم قدرت کا بہت بڑا تحفہ ہے۔ کالا باغ ڈیم بننے سے تربیلا ڈیم پر بوجھ کم ہوگا بلکہ اس کی سلٹ کو صاف کرنے کے طریقوں پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے قائدین کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ کیری لوگر بل کے بھیک کے ٹکڑوں پر پلنے کے بجائے غیرت مند قوم بننا ہوگا۔ یاد رکھیں؛ بھکاری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اسکی غیرت ہوتی ہے نہ کوئی عزت۔ اگر غیرت مند قوم بننا ہے تو ہاتھ پھیلانے کے بجائے کالا باغ ڈیم جیسے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاو¿۔ اس کےلئے کسی غیر ملکی قرضے یا گرانٹ کی کوئی ضرورت نہیں۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024