حقانی گروپ نے ہی سی آئی اے کے فراہم کردہ میزائلوں سے سوویت یونین کی فضائی قوت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا
کراچی/ واشنگٹن / لندن (ریڈیو مانیٹرنگ + آئی این پی+ اے این این) حقانی گروپ کیا ہے اس بارے میں امریکی بااثر اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنے حالیہ شماروں میں لکھا ہے کہ 25سال قبل حقانی کے جنگجو امریکی سی آئی اے کے میزائلوں کا ہدف نہیں تھے بلکہ حقانی کے جنگجوﺅں نے ہی سی آئی اے کے فراہم کردہ سٹنگر میزائلوں کے ذریعہ افغانستان میں سوویت یونین کی فضائی قوت کو تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔ اپنے ایک مضمون میں نیویارک ٹائمز نے مزید لکھا ہے کہ سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن جلال الدین حقانی قبیلے کے جنگجوﺅں کو فریڈم فائٹرز کہتے تھے۔ 80کی دہائی میں افغانستان میں حقانیوں کے ساتھ کام کرنے والے سابق امریکی انٹیلی جنس افسران کا کہنا ہے کہ اگر ایک بار پھر امریکہ کو حقانیوں سے مدد لینا پڑی تو پھر حقانیوں کے پاس جائیں گے۔ انہیں اس پر بھی حیرت نہیں کہ حقانی اب اپنے سابق اتحادی سے نبردآزما ہیں حقانیوں کے لئے پہلے مداخلت کا روسی تھے اور اب امریکی ہیں۔ نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ امریکہ پاکستان کو بار بار کہتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک دہشت گردی کی سب سے بڑی علامت ہے لیکن خود اسے دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیتا۔ امریکی ٹی وی سی این این نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی دباﺅ کے باوجود آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی زیرصدارت کور کمانڈرز کانفرنس میں پاک فوج نے فیصلہ کیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کیخلاف فی الحال کوئی کارروائی نہیں کی جائیگی۔ رپورٹ کے مطابق 2 پاکستانی دفاعی عہدیداروں نے بتایا ہے کہ پاک فوج دہشت گردوں کے خلاف کئی محاذوں پر مصروف ہے اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی پوزیشن میں نہیں جبکہ برطانوی اخبار ”گارڈین“ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ پاکستان میں موجود حقانی نیٹ ورک کے مبینہ ٹھکانوں پر حملے کیلئے کئی آپشنز پر غور کر رہا ہے۔ وہ فضائی حملوں یا چھاپہ مار کارروائیوں کے علاوہ ڈرون حملوں کا دائرہ شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ کے گنجان آباد علاقوں تک بڑھا سکتا ہے۔ دوسری طرف اے این این کے مطابق امریکی اخبار ”لاس اینجلس ٹائمز“ نے اپنے ادارئیے میں ڈرون حملوں کی پالیسی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اوباما انتظامیہ سے استفسار کیا ہے کہ کیا ایسی کارروائیاں لندن یا لاس اینجلس میں کی جا سکتی ہیں؟ مان لیجیے دہشتگردی کےخلاف جنگ ماورائے سرحد ہے مگر اس کی بھی حد ہونی چاہئے۔ افغانستان کی جنگ اب پھیل کر پاکستان کو چھو رہی ہے۔