سورہ یسٰین اورسورہ ق کی طرح اس سورہ کا آغاز بھی قرآن پاک کی قسم سے فرمایا۔ سورہ یسٰین میں قرآن پاک کو پراز حکمت فرمایا‘ سورہ ق میں قرآن ذیشان اور یہاں قرآن جواول تا آخر ذکر یعنی نصیحت سے بھرپور ہے۔ اسکے بعد فرمایا لیکن اس کے باوجود کفار اپنی اکڑ کے باعث اسکی مخالفت میں پڑے ہیں۔ پھر فرمایا ان جیسا طرزعمل رکھنے والے کئی لوگ اس سے پہلے ایسے طرز عمل کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں۔ کیا یہ بھی ایسا ہی انجام چاہتے ہیں؟
پھر حضورؐ اکرم سے فرمایا کہ آپؐ انکے اس طرز عمل کے مقابلہ میں صبر سے کام لیں۔ اور ہمارے ان بندوں کو یاد رکھیں‘ جو اس سے پہلے ایسے حالات سے گزر چکے ہیں۔ اوراس سلسلہ میں حضرت دائودؑ کا ذکر فرمایا۔ اسکے بعد فرمایا کائنات کی تخلیق بامقصد ہے‘ بے مقصد نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم فسادیوں اورنیک لوگوں سے ایک جیسا سلوک روا رکھیں۔ اسلئے ضروری ہے کہ موت کے بعد زندگی ہو اور ہر ایک کو اسکے اعمال کا بدلہ ملے۔ متقین کے سلسلہ میں سلیمانؑ کا ذکر فرمایا اور صابرین میں سے حضرت ایوبؑ کا۔ اسکے بعد حضرت ابراہیمؑ‘ اسحاقؑ‘ یعقوبؑ اور بعض دیگر انبیائؑ کا ذکر فرمایا۔
پھر فرمایا کہ موت کے بعد نیک لوگ کن نعمتوں میں ہونگے اور برے کن حالات میں۔ اسکے بعد آدم کو خلافت عطا ہونے کا واقعہ بیان فرمایا کہ ابلیس نے کیسے تکبر کے باعث آدم ؑکی خلافت سے انکار کیا اور قیامت تک کیلئے مہلت لی تاکہ وہ آدمؑ کی اولاد کو راہ راست سے بھٹکائے اور اس منصب کا نااہل ثابت کرے۔ اور جس طرح اسکا انجام خراب ہوا‘بنی آدم کا انجام بھی خراب کرے۔ شروع سورہ میں قرآن پاک کا ذکر فرمایا تھا ۔آیہ 8 اور آیہ 49 میں پھراسے ذکر فرمایا تھا۔ اختتام پر آخری پہلی آیت میں پھر مضمون کواسی بات پر ختم کیا کہ قرآن پاک دنیا جہان کے لوگوں کیلئے ذکر ہے۔
1۔قرآن (پاک) کی قسم! جو (اول تا آخر) ذکر (یعنی نصیحت) ہے (کہ آپؐ سچے رسول ہیں)۔ 2۔ مگر (اسکے باوجود) کافر (لوگ) اکڑ اور مخالفت میں پڑے ہیں۔ ’’3۔ (کیا انہیں معلوم نہیں کہ ایسے ہی طرز عمل کے باعث) ہم نے ان سے قبل کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا پھر (جب ان پر ہمارا عذاب آپہنچا‘ تو) انہوں نے (بچائو کیلئے) پکارا۔ مگر وہ بچ نکلنے کا وقت نہ تھا۔
’’4 ۔ اور انہوں نے اس پر تعجب کیا کہ انکے پاس انہی میں سے ایک (برے اعمال کے برے انجام سے) انتباہ کرنے والا آیا۔ اور کافروں نے کہا : یہ توجادو گر ہے‘ بہت جھوٹا۔‘‘ کلام کی اثر پذیری کے باعث جادوگر کہتے اور توحیدو آخرت کے منکر ہونے کے باعث اسی پرجھوٹ کا الزام لگاتے‘ جسے صادق و امین کہتے تھے۔
پھر حضورؐ اکرم سے فرمایا کہ آپؐ انکے اس طرز عمل کے مقابلہ میں صبر سے کام لیں۔ اور ہمارے ان بندوں کو یاد رکھیں‘ جو اس سے پہلے ایسے حالات سے گزر چکے ہیں۔ اوراس سلسلہ میں حضرت دائودؑ کا ذکر فرمایا۔ اسکے بعد فرمایا کائنات کی تخلیق بامقصد ہے‘ بے مقصد نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم فسادیوں اورنیک لوگوں سے ایک جیسا سلوک روا رکھیں۔ اسلئے ضروری ہے کہ موت کے بعد زندگی ہو اور ہر ایک کو اسکے اعمال کا بدلہ ملے۔ متقین کے سلسلہ میں سلیمانؑ کا ذکر فرمایا اور صابرین میں سے حضرت ایوبؑ کا۔ اسکے بعد حضرت ابراہیمؑ‘ اسحاقؑ‘ یعقوبؑ اور بعض دیگر انبیائؑ کا ذکر فرمایا۔
پھر فرمایا کہ موت کے بعد نیک لوگ کن نعمتوں میں ہونگے اور برے کن حالات میں۔ اسکے بعد آدم کو خلافت عطا ہونے کا واقعہ بیان فرمایا کہ ابلیس نے کیسے تکبر کے باعث آدم ؑکی خلافت سے انکار کیا اور قیامت تک کیلئے مہلت لی تاکہ وہ آدمؑ کی اولاد کو راہ راست سے بھٹکائے اور اس منصب کا نااہل ثابت کرے۔ اور جس طرح اسکا انجام خراب ہوا‘بنی آدم کا انجام بھی خراب کرے۔ شروع سورہ میں قرآن پاک کا ذکر فرمایا تھا ۔آیہ 8 اور آیہ 49 میں پھراسے ذکر فرمایا تھا۔ اختتام پر آخری پہلی آیت میں پھر مضمون کواسی بات پر ختم کیا کہ قرآن پاک دنیا جہان کے لوگوں کیلئے ذکر ہے۔
1۔قرآن (پاک) کی قسم! جو (اول تا آخر) ذکر (یعنی نصیحت) ہے (کہ آپؐ سچے رسول ہیں)۔ 2۔ مگر (اسکے باوجود) کافر (لوگ) اکڑ اور مخالفت میں پڑے ہیں۔ ’’3۔ (کیا انہیں معلوم نہیں کہ ایسے ہی طرز عمل کے باعث) ہم نے ان سے قبل کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا پھر (جب ان پر ہمارا عذاب آپہنچا‘ تو) انہوں نے (بچائو کیلئے) پکارا۔ مگر وہ بچ نکلنے کا وقت نہ تھا۔
’’4 ۔ اور انہوں نے اس پر تعجب کیا کہ انکے پاس انہی میں سے ایک (برے اعمال کے برے انجام سے) انتباہ کرنے والا آیا۔ اور کافروں نے کہا : یہ توجادو گر ہے‘ بہت جھوٹا۔‘‘ کلام کی اثر پذیری کے باعث جادوگر کہتے اور توحیدو آخرت کے منکر ہونے کے باعث اسی پرجھوٹ کا الزام لگاتے‘ جسے صادق و امین کہتے تھے۔