آخر مذاکرات کا ’کرائی ٹیریا‘ کیا ہو گا؟
ٹی ٹی پی کا بالخصوص خالد خراسانی گروپ بھارتی عناصر کے زیر اثر تو ہے ہی دوسری انٹرنیشنل ایجنسیاں بھی وقتاً فوقتاً ان کو یہاں پاکستان کے خلاف استعمال کرتی ہیں۔ یہ سارا دھندا تو پیسے کا یعنی ڈالرز کا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر افغانی طالبان ان کو کھل کر ’’ڈس اون‘‘ کیوں نہیں کرتے تو جواب ہے کہ جب افغانی طالبان کو پاکستان سے کچھ منوانا ہو تو ایسے میں ان گروپس کے ذریعے دباؤ بڑھایا جاتا ہے۔ طورخم بارڈر کھلنے‘ تجارت بحال کرنے یا دیگر پابندیوں کو نرم کرنے کے حالیہ مطالبات اسی طرح کے مضمرات لیے ہوئے ہیں۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے منسلک میرے دوستوں کا خیال یہ ہے کہ طالبان کا اقتدار پاکستان میں موجود انتہا پسندوں کے لیے تقویت کا باعث ہو گا اور ان کے خیال میں اگر ہمسایہ ملک میں مسلح جتھے اقتدار پر قابض ہو سکتے ہیں تو نفاذ اسلام کا نعرہ یہاں بھی کارگر ثابت ہو گا۔ تاہم میری رائے میں یہ دوست جب حقانی گروپ کا نام بطور طعنہ اور نوشہرہ‘ میران شاہ یا بھارہ کہو کا نام بطور دھمکی استعمال کرتے ہیں تو ایسے میں وہ پاکستان کے زمینی حقائق کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ پاکستانی عوام اور افواج پاکستان نے بڑی بھاری قربانیاں دی ہیں۔ اگر طورخم سے آگے امدادی ٹرک روک کر پاکستانی جھنڈا اتارا گیا تو اس کے لیے طالبان ذمہ دار ہو سکتے ہیں لیکن یاد رکھیئے کہ محمود غزنوی اور نادر شاہ وغیرہ بھی جب برصغیر سے واپس جاتے تھے تو ان راستوں پر انہیں بھی خراج دینا پڑتا تھا اس کا طالبان سے زیادہ علاقوں اور ان کی معاشی حالت کو ذمہ دار سمجھنا چاہیے۔ پاکستانی عوام نفاذ اسلام کے حوالے سے یقیناً پرجوش ہیں لیکن وہ اسلام کی کسی ایسی تعریف پر کیسے متفق ہو سکتے ہیں جس پر خود طالبان کے اندر ابہام پایا جاتا ہے۔ یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ مجھ سمیت بے شمار پاکستانی جو نئے طالبان کے حوالے سے خوش گمانی رکھتے ہیں ان کے بھی تحفظات ہیں کہ آخر طالبان کتنے ماڈریٹ ہو سکتے ہیں۔
افغانی طالبان اور پاکستانی انتہا پسند کتنے اکٹھے یا کتنے الگ الگ ہیں اس بات کو جان لینے کے بعد اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان نے ہتھیار ڈالنے والوں کے ساتھ مذاکرات کی جو پیشکش کی ہے وہ سننے میں شاید بھلی معلوم ہوتی ہے لیکن کیا یہ ہمارے آگے بڑھنے کا راستہ ہے؟ اور کیا یہی ایک راستہ ہے تو شاید ایسا نہیں ہے۔ اس پیش کش سے بین الاقوامی طور پر جو نقصان ہوا سو ہوا لیکن داخلی طور پر بھی یہ کوئی زیادہ سودمند سودا نہیں۔ پختون بیلٹ میں اور پسماندہ علاقے جنوبی پنجاب‘ اندرون سندھ تو شاید عوامی حمایت حاصل ہو جائے لیکن دیگر علاقوں میں اس پر ملا جلا ردعمل ہو گا۔ ستر ہزار سے زائد لوگوں کی جان دینے کے بعد ان سے مذاکرات کی بنیاد کیا ہو گی؟
یہ درست ہے کہ اس پیش کش سے ان گروپس کے اندر تقسیم پیدا ہوگی اور کچھ لوگ یقیناً حکومتی پیشکش کو قبول کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے جس سے ان طاقتوں کی قوت کم ہوگی لیکن اس کی قیمت کیا ہوگی؟ سنگین جرائم اور دہشت گردی میں ملوث افراد کو کھلی عام معافی نہیں دی جاسکتی۔ حکومتی اور ریاستی رٹ کو قائم کرنے کے لیے اصول یا قانون کی حکمرانی کو مقدم رکھنا ہوگا۔ یاد رکھئیے کہ حضور اکرمؐ کے وصال کے موقع پر جو لشکر جہاد کے لیے تیار تھے انہیں اس اہم ترین موقع پر بھی رُکنے کا اذن نہیں ملا بلکہ اصول کو ثابت کرنے کے لیے آہنی ہاتھوں کے استعمال کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
جیسے قاری گل بہادر کی طرف سے 20 دن کارروائیاں روکنے کا اعلان اور نوری گروپ کی طرف سے مزید کا انتظار؟ ملا فضل اللہ کے ماننے والوں سے کیسے صلح ہو سکتی ہے؟ خالد خراسانی اور دیگر جنہوں نے گلے کاٹنے کی ویڈیوز بنائی اور جاری کیں‘ پشاور آرمی پبلک سکول کے معصوم بچے ان کے قاتلوں سے کون ہاتھ ملائے گا؟
ہمیں سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کے ساتھ معاملات کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ایک مرتبہ جب سری لنکن فوج کو برتری حاصل ہوئی تو پھر انہوں نے انہیں کچلنے میں کسی رعایت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جن لوگوں کا ہمیں سامنا ہے وہ جان و مال کے ساتھ ایمان کے بھی دشمن ہیں‘ حکومت اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے اور جتھے بنا کر مطالبات نافذ کرنے والوں سے انہی کی زبان میں بات کی جا سکتی ہے۔ آخر مذاکرات کا ’’کرائی ٹیریا‘‘ کیا ہو گا جس نے دو گلے کاٹے اسے معاف اور جس نے دس کاٹے اس کے ساتھ نہیں‘ مگر یہ ثابت کون کرے گا؟
ضروری ہے کہ سب کے ساتھ قانون کے مطابق پیش آیا جائے اور کم سنگین جرائم میں ملوث افراد کے ساتھ رعایت ہو سکتی ہے عام معافی نہیں۔ قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سب قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کریں وگرنہ خدانخواستہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
…………………… (ختم شد)