27 اکتوبر: کشمیرمیں بھارتی جارحیت کا یوم سیاہ
27 اکتوبر1947 کو بھارت نے اعلانیہ طور پر کشمیر میں اپنی فوجی جا ر حیت کا آغاز کیا۔اس سے قبل بھارت نے ایک گہری سازش کے ذریعے ریڈ کلف ایوارڈ کی صورت میں گورداس پور کا علاقہ ہتھیا لیا تھا، ریڈ کلف کو یہ مشن سونپا گیا تھا کہ وہ پنجاب کی بائونڈری کا تعین کرے۔ہر ایک پر واضح تھا کہ فیروز پور، امرتسر،جالندھر اور گورداسپور مسلم اکثریت کے علاقے ہیں اور یہ پاکستان کا حصہ بنیں گے مگرایک طرف بھارت کی نظریں کشمیر پر جمی ہوئی تھیں اور دوسری طرف انگریز نے جاتے جاتے تقسیم کرو اور لڑائو کی پالیسی کے تحت پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقے بھارت کودے دیئے۔ ان میں گورداسپور کا وسیع علاقہ بھی شامل تھا جہاں سے بھارت کا کشمیر سے زمینی رابطہ قائم ہوسکتا تھا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ تقسیم کے اعلان سے پاکستان کی طرف مہاجرین کے قافلوں کا دبائو بڑھ گیا اورنئی قائم ہونیوالی ریاست آبادکاری جیسے سنگین مسائل میں گھر گئی۔انگریز دور میںانڈیا میں ساڑھے تین سو سے زائد خود مختار ریاستیں تھیں،ان کے لیے یہ اصول طے کیا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے پاکستان یا بھارت میں شامل ہوں ۔پنڈت نہرو کی حکومت نے زیادہ تر ہندو ریاستوں کو اپنے اندر ضم ہونے پر مجبور کر دیا ۔جونا گڑھ اور حیدر آباد کے حکمران مسلمان تھے، انہوںنے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا لیکن بھارت نے فوجی یلغار کرکے ان ریاستوں پربھی قبضہ جما لیا کہ ریاستوں کی زیادہ تر آبادی ہندوئوں پر مشتمل ہے۔
کشمیر کی صورتحال مختلف تھی،یہ پاکستان کی سرحدسے ملحقہ مسلمان اکثریتی ریاست تھی مگر اس کا حکمران ایک ہندو مہاراجہ تھا۔بھارت کا دعویٰ ہے کہ مہاراجہ کشمیر نے 26 اکتوبر کو اس کیساتھ الحاق کا اعلان کر دیا تھااور اسی ضمن میں بھارت نے اگلے روز ستائیس اکتوبر کو کشمیر میں بھاری تعداد میں اپنی ا فواج داخل کر دیں۔یوں ایک ایسے تنازعے نے جنم لیا جس نے برصغیر کو بار بار خون میں نہلا دیا ۔کشمیرپر بھارتی فوجی تسلط کی دونوں بنیادیں فراڈولنٹ ہیں۔پہلے تو گورداسپور کی بھار ت میںشمولیت کا اعلان سترہ اگست کو ہوا مگر اس روز ریڈ کلف برصغیر میںموجود نہیں تھا، وہ بہت پہلے دلی چھوڑکر لندن جا چکا تھا۔ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ پنجاب کی حد بندی کا اعلان لارڈ مائونٹ بیٹن نے اس وقت کیا جب اس کاانگریز سرکار سے کوئی واسطہ نہ تھا کیونکہ پندرہ اگست کو برصغیر کی تقسیم عمل میں آچکی تھی اور لارڈ مائونٹ بیٹن کی وائے سرائے کی حیثیت ختم ہوگئی تھی اور اس نے کانگریس کی فرمائش پر بھارت کے پہلے گورنر جنرل کا حلف اٹھا لیا تھا۔اب تاریخ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ بھارت کا گورنرجنرل یکطرفہ طور پر پاکستان کی سرحد کا تعین کیسے کر سکتا تھا ۔ اگرچہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنے حد بندی کے فیصلے کیلئے ریڈ کلف کے ایوارڈ کو ڈھال بنایا تھا لیکن عدالتی روایات کے مطابق ریڈ کلف کو اپنا ایوارڈ پندرہ اگست سے قبل عدالت میں بیٹھ کر فریقین کی موجودگی میں سنانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ کیا گیا اور یوں تاریخ کیساتھ دھاندلی کی ایک روایت قائم ہوئی۔بھارت نے یہی دھاندلی مہاراجہ کے الحاق کے اعلان کی صورت میں بھی کی۔دنیا کے کسی آرکائیو میں الحاق کی اس دستاویز کا وجود نہیں ہے۔بھارت نے جس کسی کو یہ دستاویز دکھائی ان کا کہنا ہے کہ اس دستاویز پر مہاراجہ کے دستخط نہیں تھے۔ سلامتی کونسل میں برسوں تک بحث ہوتی رہی لیکن بھارت اس دستاویز کو وہاں پیش نہیں کر سکا۔دوسری طرف چارلیس لیمب جیسا انگریز مورخ اور محقق بھارت کے اس کھوکھلے دعوے کو یہ کہہ کر رد کرتا ہے کہ بھارت سے کشمیرکے الحاق کی یہ دستاویز ریکارڈ سے چوری ہوگئی تھی۔بھارت نے ان غلط دعوئوں کا جال پھیلا کر کشمیر پر فوجی چڑھائی کر دی لیکن کشمیریوں نے اس کے اس اقدام کو ماننے سے ا نکار کردیا اور پوری وادی سراپا احتجاج بن گئی اور گلی گلی بھارتی فوج سے تصادم شروع ہوگیا۔پاکستان اس تنازعہ کا باقاعدہ ایک فریق تھا اور اسے پورا حق پہنچتا تھا کہ وہ ملحقہ مسلم ریاست کو ہندو تسلط سے بچانے کیلئے کارروائی کرے۔اس طرح کشمیر ی جانبازوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی فوجی دستوں سے بھی بھارت کا ٹکرائو عمل میں آیا۔ پاکستان مذہبی اور اخلاقی ذمہ داری کے تحت کشمیریوں کی مدد کا پابند تھا۔اورتقسیم ہند کے اصول کے تحت بھی وہ کشمیریوں کو بھارتی تسلط سے بچانے میں حق بجانب تھا۔بھارت کی جارحانہ یلغارمیںشامل فوجی دستے بزدل نکلے ، وہ کشمیریوں اور پاکستانیوں کے سامنے میدان میں لڑنے کے قابل نہ رہے تو پنڈت نہرو یہ دیکھتے ہوئے کہ ان کی فوجی یلغار ناکام ہوچکی ہے، بھاگم بھاگ سلامتی کونسل جا پہنچااور اس سے سیز فائر کی بھیک مانگی۔اگلے دوبرس تک سلامتی کونسل میں بحث مباحثہ چلتا رہا ۔سلامتی کونسل بار بار سیز فائر کی قراردادیں منظور کرتی رہی۔ہر قرارداد میں اس بات پر زور دیا گیا تھاکہ فریقین لڑائی بند کردیں اور کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی آزادانہ طور پر کشمیریوں کواپنی مرضی سے کرنے دیا جائے۔بھارت نے ان قرارداوں کو تسلیم تو کر لیا اور وقتی طور پر جنگ بھی بند ہوگئی مگر وہ دن اور آج کا دن بھارت ریفرنڈم سے انکاری ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا گیا اور اس نے برصغیر کے امن کو کئی مرتبہ تہہ وبالا کیا۔ بھارت کی ایک ہی کوشش ہے کہ وہ اپنی اندھی فوجی طاقت کے ذریعے کشمیر پر قابض رہے اور وادی کشمیر میں حریت کی ہر آواز کا گلا گھونٹ دے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے دوسال قبل اقوام متحدہ کو کشمیر کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا تھا کہ بھارت کے عزائم اس قدر جارحانہ ہیں کہ وہ کشمیر پر قبضے کے بعد پاکستان کوبھی ہزیمت سے دوچار کر ناچاہتا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت سراسر آگ سے کھیل رہا ہے،برصغیر کے دونوں ملک ایٹمی طاقت ہیں اور اگر کوئی تصادم ہوا تو تباہی کا دائرہ خطے سے باہر تک پھیل جائے گا، اس لیے بھارت کو ہوش کے ناخن لینے چاہییں اور اقوام متحدہ کو اپنی قرار دادوں پر عمل کرانا چاہیے تاکہ کشمیریوں کے نعرے کشمیربنے گا پاکستان کی عملی تعبیر سامنے آسکے۔
٭…٭…٭