انگریز کے نظام کو پاکستانی بنانے کی ضرورت
پاکستان کی مقتدر اشرافیہ تو انگریزوں کے نظام میں رچ بس چکی ہے اور جانتی ہے کہ ان کے مفادات اس نظام سے وابستہ ہیں۔ جس دن نظام بدل گیا اس دن ان کی سیاست اور معیشت پر بالادستی ختم ہو جائے گی-افسوس پاکستان کے پڑھے لکھے متوسط طبقے کے افراد پر ہے جو استحصالی نظام کی تبدیلی کی بات ہی نہیں کرتے۔ کامن سینس کی بات ہے کہ انگریزوں نے متحدہ ہندوستان کے لیے تعلیم انصاف پولیس بیوروکریسی عدالتی انتخابی اور معاشی نظام تشکیل دئیے تھے۔ وہ اس لیے نہیں تھے کہ ہندوستان کے عوام آزاد اور خودمختار شہری بن جائیں اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں بلکہ یہ نظام عوام کو محکوم اور غلام رکھنے اور برطانوی لوٹ مار جاری رکھنے کے لیے تشکیل دیے گئے تھے جن کی منظوری برطانوی پارلیمنٹ نے دی تھی۔ہندوستان اور پاکستان کی آزادی کے بعد لازم تھا کہ انگریزوں کے نظام کو آزادی کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا جاتا جس کا وعدہ قائد اعظم نے مسلمان قوم سے کیا تھا۔پارلیمانی انتخابی نظام پوری دنیا میں ناکام ہو رہا ہے کیونکہ اس نظام میں عوام کی بجائے پارٹی لیڈروں اور سیاسی اور تجارتی خاندانوں نے بالا دستی حاصل کر لی ہے۔
پاکستان کے سیاسی اور دوسرے با اثر خاندانوں نے پاکستان کے وسائل کو جس بے دردی سے لوٹا ہے اس کی داستانیں پانامہ پیپرز اور پنڈورا پیپرز میں شامل ہیں۔پاکستان کے سیاسی نظام کا المیہ ملاحظہ فرمائیے کہ جن لوگوں کے نام پنڈورا پیپرز میں سامنے آئے ہیں ان کو گرفتار کرنے کے بجائے ان کو اس وقت تک منصبوں پر فائز رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب تک ان کے بارے میں تفتیش مکمل نہ ہو جائے۔ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک بار پھر پانامہ لیکس کی طرح تحقیقی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ اگر پارلیمانی نظام پر عوام کی بالادستی ہوتی اور وزیراعظم عوام کو جواب دہ ہوتے تو منی لانڈرنگ کرنے والوں کو کبھی معاف نہ کرتے اور وہ وزارتوں کے منصبوں کے بجائے جیلوں میں بند ہوتے۔ موجودہ پارلیمانی نظام میں چوں کہ وزیراعظم اراکین پارلیمنٹ کو جواب دہ ہیں اس لیے وہ مجبور ہیں کہ اپنا اقتدار بچانے کے لیے منی لانڈرنگ کرنے والوں کو رعایت دیں۔ وزیراعظم عمران خان نے نیب آرڈیننس میں ترمیم کرکے گریڈ 20 21, اور 22 کے بیوروکریٹس سیاست دانوں اور تاجروں کو این آر او جاری کر دیا ہے۔ اور اب وہ مجرمانہ غفلت آئین و قانون کی خلاف ورزی اقربا پروری رشوت ستانی اور کرپشن کے سلسلے میں نیب کو جواب دہ نہیں ہوں گے۔ عمران خان نے اپنی 22 سالہ سیاسی جدوجہد کے دوران احتساب کا جو بیانیہ تشکیل دیا تھا اسے خود ہی پاش پاش کر کے رکھ دیا ہے۔
چیئرمین نیب کی نامزدگی کے سلسلے میں مشاورت کا اختیار صدر پاکستان کو دے دیا گیا ہے جو وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کر کے چیئرمین نیب کی نامزدگی کر سکیں گے۔ یاد رہے آئین کے مطابق صدر پاکستان وزیراعظم کی منظوری کے بغیر کوئی اقدام نہیں کر سکتے۔ 1946 سے 2018 کے تمام انتخابات گواہ ہیں کہ پاکستان کے دو سو خاندان پاکستانی سیاست پر قابض ہیں اور سیاست کو اپنے خاندانی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ سیاسی جمہوری انتخابی نظام کو شراکتی بنانے کی ضرورت ہے۔موجودہ شخصی وراثتی اور خاندانی سیاسی نظام کو عوامی بنانے کے لیے لازم ہے کہ وزیراعظم کا انتخاب عوام براہ راست کریں تاکہ خاندانوں کی اجارہ داری ختم ہو سکے اور منتخب وزیر اعظم انتخابی منشور کے مطابق حکومت چلا سکے اور فیصلے کر سکے۔اراکین پارلیمنٹ قانون سازی کا کام کریں اور انتظامیہ میں ان کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ سینٹ اور خواتین کی خصوصی نشستوں کی طرح قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر کروائے جائیں تاکہ قوم کی جان سرمایہ کار الیکٹ ایبلز کے مکروفن اور ننگی لوٹ مار سے چھوٹ جائے-قانون سازی کرکے اراکین پارلیمنٹ کے لیے کوٹہ مقرر کیا جائے تاکہ پارلیمنٹ میں مزدور کسان اساتزہ ڈاکٹر انجینئر سکالرز سب شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی نمائندگی ہو اور پارلیمنٹ حقیقی طور پر عوام کی نمائندہ بن سکے۔ اسمبلیوں کی مدت چار سال کی جائے۔ جب وزیراعظم دو سال کی مدت پوری کر لے تو پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے وزیراعظم کو پابند کر سکتی ہے کہ وہ آئینی ریفرنڈم کے ذریعے عوام سے اعتماد کا ووٹ لے۔ اگر وزیراعظم عوام کا اعتماد کھو بیٹھے تو مڈ ٹرم الیکشن کروائے جائیں۔ صوبوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ بلدیاتی انتخابات قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے ساتھ کروائے جائیں۔ آزاد اور طاقتور کمشن تشکیل دیا جائے جو اراکین پارلیمنٹ کے امیدواروں کی مکمل جانچ پڑتال کرکے انہیں رکن پارلیمنٹ بننے کا اہل قرار دے۔ قومی فنانس کمیشن کی طرح صوبائی فنانس کمشن تشکیل دیا جائے جو مقامی حکومتوں کو آئین کے مطابق مالیاتی حصہ دے۔الیکشن کمیشن کی نگرانی میں سیاسی جماعتوں کے شفاف انتخابات کرائے جائیں جو میڈیا کے سامنے ہوں اور ہر جماعت کے پانچ ہزار کارکنوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ یونین کونسل سے لے مرکز تک تمام عہدیداران کو منتخب کریں تا کہ پاکستان کے اندر حقیقی معنوں میں جمہوری کلچر پروان چڑھ سکے۔ جب تک سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہوگی پاکستان میں جمہوری کلچر کے نشوونما پانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہر سیاسی جماعت کے کارکن اپنے لیڈروں کے لئے تن من دھن قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں مگر وہ اپنے جمہوری حقوق حاصل کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کرتے۔پارٹی کے عہدیداروں کو منتخب کرنے کا جمہوری حق کارکنوں کے پاس ہوتا ہے اور کارکنوں کو ہی یہ اختیار ملنا چاہیے کہ وہ اپنے انتخابی حلقے میں سے اپنی پسند کے شخص کو امیدوار برائے پارلیمنٹ نامزد کریں۔ ہمیں 74 سال کے بعد تو اب اس نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے کہ پاکستان میں انگریزوں کا نظام ہی ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے ۔ جب تک انگریزوں کے نظام کو تبدیل نہ کر دیا جائے پاکستان کسی صورت ترقی نہیں کرسکتا ۔
اگر پاکستان گزشتہ 74سال سال کے دوران انگریزوں کا نظام چلانے کے باوجود ترقی نہیں کر سکا اور ناکارہ اور ناکام ثابت ہو چکا ہے تو پھر ایسے نظام کو مزید کیوں چلایا جائے اور اس سے کسی بھی قسم کی بہتری کی توقع کیوں رکھی جائے۔پاکستان کے موجودہ نظام کی شرمناک ناکامی کا اندازہ تحریک لبیک پاکستان کے حالیہ احتجاج سے لگایا جا سکتا ہے جس میں پولیس کے جوان اور تحریک لبیک کے کارکن جان بحق و زخمی ہوئے۔موجودہ نظام جان و مال کی حفاظت اور امن و امان کے قیام میں مکمل طور پر ناکام ہوا۔ جن افراد نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا ان کو بلا مشروط رہا کر کے آئین و قانون کی حکمرانی کا جنازہ نکال دیا گیا۔پاکستان سے محبت کرنے والے باشعور افراد سے اپیل ہے کہ وہ موجودہ اپاہج اور ظالمانہ نظام کی تبدیلی کے لیے توانا آواز اٹھائیں۔