بدھ ،20 ربیع الاول 1443ھ27 اکتوبر 2021ء
فغانستان کی معاشی صورتحال بہتر بنانے کیلئے تیار ہیں: پاکستان
اپنی تومعیشت ہم سے سنبھالے نہیں سنبھلتی اور ہم ہیں کہ اب افغانستان کی معیشت کو جو پہلے ہی سے ڈوبتی ہوئی نائو بنی ہے‘ سنبھالا دینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ افغانستان کی اقتصادی اور معاشی صورتحال دیکھ کر تو بڑے بڑے ترقی یافتہ ملک بھی اسے سنبھالا دینے کی بات نہیں کرتے بلکہ اس سے جان چھڑانے کی راہیں تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ہم ہیں کہ آبیل مجھے مار کہتے ہوئے دلدل میں اترنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگر ہماری معاشی ٹیم اتنی اچھی ہوتی کہ وہ معاشی صورتحال میں بہتری لا سکتی تو سب سے پہلے اسے یہ فارمولے پاکستان کی اپنی ڈوبتی ہوئی معیشت کو بچانے کیلئے استعمال کرنا چاہئیں۔ اس وقت خود ہماری معیشت کی نائو ڈانواں ڈول ہے۔ ہماری اقتصادی حالت ابتر ہے۔ ایسے میں ہم بھلا کسی اور کی معاشی اور اقتصادی حالت بہتر بنانے کی کیا خاک مدد کر سکیں گے۔ اب اگر ہماری معاشی ٹیم نے افغانستان کا بھی وہی حشر کر دیا جو ہماری معیشت کا وہ کر رہے ہیں تو یاد رہے افغانستان سے کوئی غیرملکی فوجی زندہ واپس نہیں جاتا تو ہمارا کوئی معیشت دان بھی زندہ واپس نہیں آ سکے گا۔ اس لئے مشتری ہوشیار باش۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔ آگے جو مرضی وہ کریں۔ ہم کون ہوتے ہیں بلندو بانگ بظاہر خوشنما دکھائی دینے والے دعوئوں کی نفی کرنے والے۔ بس یہی کہنا ہے کہ…ع
’’دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ‘‘
٭٭٭٭
محسن داوڑ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست پر وزارت داخلہ اور کابینہ سے جواب طلب
کیا پہلے جو گمراہ عناصر بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان کے خلاف ہر وقت بھونکتے پھرتے ہیں‘ جو جی میں آئے ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں۔ ان کا ساتھ دینے کیلئے اب ایک اور گمراہ شخص کو جو کھلے عام پاکستان‘ اس کی فورسز اور پاکستانی سرحدوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا پھرتا ہے۔ خود کو علی الاعلان فخر سے افغانی کہتا ہے۔ جلسوں میں افغانستان کا پرچم لہراتا ہے۔ اس کا ترانا پڑھتا ہے اور پڑھواتا ہے۔ کیا اسے باہر جانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ سیاسی مجبوریوں کا تو علم نہیں مگر ایسے بد باطن شخص کو تو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے۔ مگر ہم نے اسے سیاست کرنے‘ الیکشن لڑنے کی چھوٹ دی جس کے بعد وہ قومی اسمبلی تک آن پہنچا ہے۔ ہم شاید دنیا کی واحد قوم ہیں جو سانپوں کوخود پالتے ہیں تاکہ وہ ہم کو ہی ڈنک ماریں۔ مصلحت کوشی کا وقت گیا‘ جو عناصر ملک و قوم‘ سکیورٹی اداروں اور سرحدوں کے خلاف زبان درازیاں کرتے پھرتے ہیں‘ اب ان کو لگام ڈالنے کا وقت آگیا ہے۔ داوڑ ہو‘ پشتین ہو یا وزیر کسی کو کوئی رعایت نہیں ملنی چاہئے۔ پہلے ہی بیرون ملک ہمارے خلاف بولنے والے بھارت کے ایما اور اس کی فنڈنگ سے ہمارے خلاف کیا کم گل کھلا رہے ہیں کہ اب اس نئے فتنے کو بھی جانے کی اجازت دی جائے تاکہ یہ جا کر ان گمراہ عناصر کو نئی کمک فراہم کرے۔
٭٭٭٭
بلوچستان میں عبدالقدوس بزنجو کووزیراعلیٰ بنانے کی تیاریاں
بلوچستان میں جام کمال کی تمام تراڑی کے باوجود بالآخر انہیں اقتدار کے محمل سے نکلنا پڑا۔ اب میکدہ ویران ہے۔ جام خالی ہو تو کون اسے اٹھانے کی زحمت کرتا ہے۔ کئی جام تو ٹوٹ کر میکدے کے فرش پر بکھرے پڑے ہوتے ہیں۔ اب بلوچستان کا سیاسی طوفان بظاہر تھم چکا ہے۔ ’’باپ‘‘ نے عبدالقدوس بزنجو کو پارلیمانی قائد چُنا ہے جو پہلے اسمبلی کے سپیکر تھے۔ وہ ایک نوجوان سیاستدان ہیں۔ شاید اس وقت کو ایک جوان وزیر اعلیٰ کی ہی ضرورت ہے جو روایتی سیاست سے ہٹ کر کچھ انقلابی اقدامات کرے۔ ناراض لوگوں کو منائے کچھ ان کی سنے کچھ اپنی سنائے۔ بندوق اٹھائے ہاتھوں میں قلم تھمائے کیونکہ قلم کتاب اور استاد ہی زندگی بدلتے ہیں۔ روزگار کے دروازے کھولے اور سب سے بڑھ کر لوٹ مار کی راہیں مسدود کر کے میرٹ پر عمل کرے بھی کروائے بھی۔ یہاں اب پی ٹی آئی والوں نے رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے یار محمد رند کو اپنا امیدوار برائے وزیر اعلیٰ نامزد کیا ہے۔ اس طرح سیاسی گرمی بڑھنے لگی ہے۔
اگر باپ اور اپوزیشن جماعتیں مل جاتی ہیں تو پھر عبدالقدوس بزنجو کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ جام مخالف رہنمائوں نے فی الحال انہیں پارلیمانی قائد چن لیا ہے۔ جے یو آئی بھی ساتھ ہی نظر آتی ہے۔ یوں اب اس نئے سیاسی سفر کا آغاز خدا کرے بلوچستان کے لیے سعدثابت ہو اور وہاں کے ناراض نوجوانوں کو بھی واپس قومی دھارے میں لانے کے لئے راضی کیا جا سکے۔ ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز کر کے عوام کو صحت ، تعلیم اور روزگار کی سہولتوں کی فراہم کر کے ہی صوبے میں خوشحالی آ سکتی ہے۔
٭٭٭٭
بھارت کو دو اعظم یاد رہیں گے۔ شعیب اختر
بے شک پاکستانی کرکٹ ٹیم نے بھارت کو کرکٹ میچ میں ہرا کر پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جوش جذبات میں آ کر جو جی چاہے بولیں۔ پہلے سیاست میں جو کچھ ہوا تھا کیا وہ کم تھا کہ جب جوش جذبات میں آ کر کسی آمر کو امیر المومنین بنانے کی کوشش ہوئی تو کسی جمہوری وزیراعظم کو قائد اعظم ثانی بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ ایک غلط طرز عمل تھا اور رہے گا۔ اب میچ جیتنے کے بعد کئی جذباتی لوگ جن میں شعیب اختر جیسا بڑا کرکٹر بھی شامل ہے۔ بابر اعظم کو قائداعظم کی صف میں لانے کی جسارت کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک غلط سوچ ہے۔ ہمارے سیاستدان اور کھلاڑی حد سے حد مغل اعظم تو کہلائے جا سکتے ہیں مگر انہیں بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی صف میں لانے کا تصور بھی نہیں ہونا چاہئے۔
قائداعظم صرف محمد علی جناح تھے اور وہی رہیں گے۔ کوئی رنگ باز، کوئی سیاستدان ، کوئی کھلاڑی کچھ بھی کہلا سکتا ہے مگر قائداعظم کے ساتھ ان کو جوڑنا بھی انکی بے حرمتی ہوگی جو کسی کو زیب نہیں دیتا۔ ہاں جس کا جی چاہے انہیں اعظم کے ردیف قافیہ کے ساتھ جوڑ کو خاقان اعظم، مجاہد اعظم، مغل اعظم کہہ سکتا ہے۔ اس لیے آئندہ محتاط رہتے ہوئے ہمیں کسی کی بھی تعریف میں رطب اللسان ہوتے وقت سوچ سجھ کر الفاظ ادا کرنے ہوں گے تاکہ پاکستانیوں کی دلازاری نہ ہو۔ کیونکہ ہمارے قائداعظم ایک ہی تھے اور ایک ہی رہیں گے۔
٭٭٭٭