بھارتی جارحانہ قبضے کیخلاف کشمیریوں کا یوم سیاہ‘ حالات عالمی برادری کے نوٹس لینے کے متقاضی
آج 27 اکتوبر کو کشمیرپر بھارت کے غاصبانہ قبضے کیخلاف پاکستان‘ مقبوضہ کشمیر‘ آزاد کشمیر گاور دنیا میں جہاں کہیںبھی کشمیری اور پاکستانی آباد ہیں‘ یوم سیاہ منا رہے ہیں۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق حریت فورم نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں کہا کہ 1947میں اسی دن بھارتی فوجیوں نے کشمیر میں اترکر ہماری سرزمین پر قبضہ کیاتھا۔ اس دن سے آج تک لاکھوں بھارتی فوجی ہم پر اور ہماری سرزمین پر غیرقانونی طورپر قابض ہیں۔ بیان میں دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھارتی تسلط میں رہنے والے اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر منائیں۔دریں اثناء ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر سردارمسعود نے کہا کہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہمارے حریت پسند اکتوبر 1947ء میں سرینگر کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ جب بھارت نے شیخ عبداللہ اور مہاراجہ ہری سنگھ سے سازباز کرکے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کردیں اور ریاست پر فوجی قبضہ کرلیا۔ شیخ عبداللہ اور مہاراجہ کی اس سنگین غداری کا خمیازہ پوری کشمیری قوم گزشتہ 73 سال سے بھگت رہی ہے۔
27؍ اکتوبر کشمیر کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ بھارت نے یہ باب تحریر کرکے خطے میں امن کو تباہ و برباد کرنے کی بنیاد رکھی۔ وادی پر قبضہ کرنا بھارت کی کھلی جارحیت تھی‘ جس کا کوئی اخلاقی و قانونی جواز نہیں تھا۔ اس روز کشمیر کی نام نہاد جمہوری ریاست نے عوام کے بنیادی حقوق غصب کرکے عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی کی۔ بھارت اس وقت کے کشمیری حکمران راجہ ہری سنگھ کے ساتھ معاہدے کی بات بھی کرتا ہے۔ اس معاہدے کی حیثیت بھی مشکوک ہے۔ اگر معاہدہ ہوا تھا تو بھی ہری سنگھ کو اس کا اختیار نہیں تھا۔ انگریز کے طے شدہ قانون اصول یاضابطہ کے تحت ہری یا کسی بھی ریاست کے حکمران کے پاس پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا حق یا اختیار نہیں تھا۔ یہ حق کسی بھی ریاست کی اکثریتی آبادی کو حاصل تھا۔ کشمیر میں مسلم آبادی اکثریت میں تھی لہٰذا کشمیر کا پاکستان کے ساتھ ہی الحاق بنتا تھا۔ ہری سنگھ کے الحاق کے اصول کو بالفرض درست مان بھی لیا جائے تو ایسا ہی فیصلہ حیدرآباد دکن‘ مناوادر اور جوناگڑھ کے نواب حکمرانوں نے بھی کیا تھا۔ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے۔ جسے بھارت نے نہ صرف قبول نہیں کیا بلکہ ان آزاد ریاستوں پر بھی جارحانہ قبضہ کرلیا۔ اس دہرے معیار اور دوعملی پر عالمی برادری خاموش رہی۔
کشمیری کسی بھی صورت بھارت کے ساتھ رہنے پر تیار نہیں ہیں۔ بھارت نے ہر حربہ‘ ہر ہتھکنڈہ‘ ہر ناجائز ذریعہ اور ظلم و جبر کا ضابطہ آزماکر دیکھ لیا مگر کشمیری آزادی کے سوا کچھ بھی قبول کرنے کو تیار نہیں۔ کشمیریوں کو ایک غدار ہری سنگھ ہی نہیں قدم قدم پر ایسے غداروں اور انکی سازشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ شیخ عبداللہ کا خاندان غدار ابن غدار بن چکا ہے۔ مفتی فیملی بھی کچھ پیچھے نہیں۔ بخشی خاندان بھی انہی جیسا ہے۔ اب بھارت نے انسانیت اور اخلاقیات کی تمام حدیں عبور کرلیں تو مذکورہ خاندانوں کے اندر غیرت کا ابال اٹھ رہا ہے۔ اپنے بزرگوں کے پاکستان اور قائداعظم کی مخالفت کے رویوں کو مطعون کر رہے ہیں۔ یہ بکائو لوگ ہیں بعید نہیں اپنا مول بھائو بڑھانے کیلئے ٹسوے بہا رہے ہوں۔ کشمیری بہرحال انکی چال اور جال میں آنیوالے نہیں ہیں۔
حریت پسند آزادی کے پھریرے لہراتے ہوئے سرینگر تک پہنچ گئے تھے۔ قریب تھا کہ پوری وادی پر ان کا تسلط ہو جاتا کہ ہری سنگھ بھارتی حکومت کے دام میں آکر معاہدے پر آمادہ ہوگیا۔ اس معاہدے پر جس کا اسے اختیار ہی نہیں تھا۔ اسی دوران نہرو بھاگا بھاگا اقوام متحدہ جا پہنچا جس نے جنگ بندی کرادی اور اپنی قراردادوں میں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے استصواب کی تجویز دی۔ جسے بھارت نے تسلیم کیا مگر عملدرآمد سے شروع میں ٹال مٹول سے کام لیتا رہا ‘اب انکاری ہو چکا ہے بلکہ اس نے آزاد کشمیر اور پاکستان کے کئی حصوں پر بھی حق جتانا شروع کر دیا ہے۔ اسکی طرف سے مقبوضہ کشمیر پر مضبوط تر بنانے کے کئی حربے اختیار کئے جارہے ہیں۔
کشمیریوں کی تحریک آزادی روزافزوں تیز ہو رہی ہے۔ قربانیوں کا سلسلہ عروج پر ہے۔ بھارت خصوصی طور پر برہان مظفروانی کی شہادت کے بعد تحریک کو نئی مہمیز ملنے کے بعد بوکھلا گیا۔ پہلے اس نے نام نہاد کٹھ پتلی حکومت کا خاتمہ کرکے گورنر راج نافذ کیا۔ حالات بدستور بے قابو رہے تو صدر راج نافذ کردیا گیا۔ حالات پھر بدترین ہی رہے تو 5‘ اگست 2019ء کو کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرکے شب خون مارا گیا جس سے کشمیریوں کے جذبہ حریت میں بے پایاں اضافہ ہوا۔ وہ طوفانوں اور پہاڑوں سے ٹکرانے کا عزم لے کر نکلے تو بھارت نے ان پر بدترین پابندیاں لاگو کر دیں اور یہ آج ڈیڑھ سال ہونے پر بھی بدستور نافذ ہیں۔ ان کو کشمیری خاطر میں نہیں لا رہے‘ جب بھی موقع ملتا ہے گھروں سے نکل کر مظاہرے کرتے اور بھارتی فورسز کی سیدھی فائرنگ سے موت کی لکیر پار کر جاتے ہیں۔ کشمیری آزادی سے کم پر آمادہ نہیں جبکہ بھارت کو انسانوں سے زیادہ علاقے سے غرض ہے جو سیاحوں کی جنت اور نوادرات کی آماجگاہ ہے۔ بھارت نے کشمیریوں پر مزید ظلم کے پہاڑ توڑنے کیلئے فوج کی تعداد ساڑھے نو لاکھ کردی ہے۔
بھارت اقوام متحدہ کی تجویز پر کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے پر سردست تیار نہیں ہے مگر جلد وہ اس پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ اس نے آرٹیکل 270 اور 35اے کا خاتمہ اسی سازش کی تکمیل کیلئے کیا ہے۔ رواں سال اپریل سے اب تک بھارت کے 22 لاکھ ہندو شہریوں نے مقبوضہ کشمیر کے ڈومیسائل کیلئے درخواستیں جمع کرائیں جن میں سے اٹھارہ لاکھ کو پچھلے چند ماہ ڈومیسائل دیکر تمام شہری حقوق دیئے گئے ہیں۔ بھارت جن لوگوں کو کشمیر میں لا کر آباد کررہا ہے‘ انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اکثریت یا تو سابق فوجیوں کی ہے یا آرایس ایس کے شدت پسند نظریاتی کارکن ہیں۔ بھارت پچاس لاکھ ہندوئوں کو کشمیر کا ڈومیسائل دینے کے بعد اگلے مرحلہ میں انتخابی حلقوں میں تبدیلیاں لا کر بی جے پی کو حکمرانی دیکر مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنا چاہتا ہے۔
جبکہ کشمیری کسی صورت یہ تبدیلی قبول کرنے پر تیار نہیں ہوسکتے۔ بھارت ایسا کر گزرتا ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ہے تو وادی ہمہ وقت خون رنگ رہے گی۔ غیرفطری تبدیلی کے ایسے تباہ کن نتائج ہوتے ہیں۔ عالمی برادری بھارت کو ایسی تبدیلیوں سے بہرصورت باز رکھے۔ آخری کشمیری اپنے حقوق کے حصول تک آخری سانس تک لڑنے مرنے کیلئے پرعزم ہے۔ اقوام متحدہ یہ نوبت نہ آنے دے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024