منگل‘ 9 ؍ ربیع الاول 1442ھ‘ 27؍اکتوبر 2020ء
لاہور میں اورنج ٹرین کا افتتاح، اپوزیشن نے بھی تقریب سجائی
ایک طویل انتظار کے بعد بالآخر لاہوریوں نے اپنے سروں پر چلتی چھک چھک کرتی اورنج ٹرین کا نظارہ کر ہی لیا۔ فراٹے بھرتی یہ ٹرین اب لاہوریوں کو جدید اور آرام دہ طرز سفر سے آشنا کرے گی۔ سڑکوں پر ٹریفک کے اژدھام شور وغل اور آلودگی سے بے نیاز یہ ٹرین لاہور کی ایک نئی پہچان بنے گی۔ گزشتہ روز وزیر اعلیٰ پنجاب اور چینی قونصل جنرل نے اس ٹرین کا افتتاح کیا تو لاہوریوں کی خوشی دیدنی تھی۔ حکمران بھی خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔ ٹرین اس کے تمام روٹ اور سٹیشنوں کو آرائشی جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا۔ ٹرین اور سٹیشنوں کا مستعد عملہ عوام کی میزبانی کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوئے تھا۔ اس موقع پر ٹرین کے حوالے سے ایک اور افتتاحی جلسہ مسلم لیگ (ن) کے حواریوں نے بھی سجایاکیا۔ اسے ہم جلسہ تو نہیں کہہ سکتے کہ …؎
یہ محفل جو آج سجی ہے اس محفل میں
ہے کوئی ہم سا ہم سا ہو تو سامنے آئے
کہا جاتامگر افسوس لاہور کے وارث کہلانے والے یہ بھی نہ کر سکے۔ پہلے شہباز شریف کی گرفتاری پر ناکام احتجاج کا داغ کم تھا کہ اب ٹرین کی افتتاحی تقریب میں بھی مجمع نہ لگانے کا داغ بھی دامن پر لگا بیٹھے۔
٭٭٭٭٭
امریکہ کی طرف سے سوڈان کے لیے 81 ملین ڈالر امداد کا اعلان
کہاں وہ وقت تھا کہ سوڈان بری طرح امریکی پابندیوں کی زد میں تھا۔ اس پر انتہا پسند تنظیموں کی سرپرستی کرنے کا بھیانک الزام لگا ہوا تھا۔ یوں سوڈان والوں کے لیے زندگی مشکل سے مشکل تر ہو رہی تھی۔ مگر جیسے ہی سوڈان حکومت اسرائیل کو تسلیم کرنے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا۔ امریکہ ساری پرانی باتیں بھول کر یکدم سوڈان پر مہربان ہو گیا۔ دہشت گردوں کی سرپرستی کا رونا دھونا بھول کر اس نے سوڈان میں معاشی حالت بہتر بنانے اس کی تعمیر و ترقی کے لیے 81 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کر دیا۔ یوں امریکہ دوغلی پالیسی ایک بار پھر بے نقاب ہو گئی۔ لگتا ہے امریکہ نے اسرائیل مخالف ممالک کو زیر کرنے کے لیے اپنے ناجائز بچے کے تحفظ کے لیے یہ پالیسی اپنائی ہے کہ اسرائیل کو نہ ماننے والوں کی گردن دبوچ کے رکھی جائے اور اسرائیل کو تسلیم کرنے والوں کی گردن میں پھولوں کے ہار ڈالے جائیں۔ مگر امریکہ کی اس منحوس عنایات خسروانہ کا نتیجہ سوڈان میں ترقی و خوشحالی سے زیادہ خانہ جنگی کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے۔ جہاں شدت پسند عناصر اور حکومت کے درمیان ایک نئی خانہ جنگی بھڑک سکتی ہے جس سے ملک کے حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ شاید امریکہ چاہتا بھی یہی ہے۔
بھارت میں کسانوں نے دسہرہ پر راون کی جگہ مودی کا پتلا جلایا
اس وقت بھارت میں کروڑوں کسانوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔ بنئیوں ساہوکاروں اور بنکوں کے سود کے چنگل میں پھنسے یہ کسان زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ ہر روز کئی کسان خودکشی کر رہے ہیں۔ گھر ، زیور ، زمین اور جانور فروخت کر کے بھی ان کا قرضہ تو دور کی بات قرض پر چڑھا سود ہی ادا نہیں ہوتا تو ایسے میں کئی کسان گھر والوں سمیت خودکشی کر لیتے ہیں۔ بے شمار اپیلوں کے باوجود مودی حکومت جو خود انہی ساہوکاروں ، بنیوں اور بنکاروں کی مدد سے قائم ہے اس مسئلہ پر خاموش ہے۔ کسانوں کی آواز پر کان نہیں دھر رہی۔ حکومت کی اس بے نیازی سے تنگ آ کر گزشتہ روز دسہرہ کے مذہبی تہوار پر جس میں رام کے ہاتھ راون کی موت اور سیتا کی اس ظالم کے قید سے رہائی کی خوشی میں ظالم راون کے پتلے جلائے جاتے ہیں۔ اس بار کسانوں نے راون کی بجائے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے پتلے نذر آتش کئے۔ یہ اصل میں ظالم مودی سرکار سے نفرت اور نجات کا اظہارکی عکاسی ہے کہ کسی طرح اس کسان دشمن سرکار سے نجات ملے ویسے بھی راون اور مودی دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں دونوں انسانیت کے دشمن ہیں جنہوں نے ہمیشہ نفرت اور جنگ کو ہوا دی اور امن و محبت کی راہ کھوٹی کی۔
٭٭٭٭٭
وزیر اعظم مہنگائی پر ناراض وزارتوں میں ردوبدل کا امکان
اب معلوم نہیں وزارتوں میں ردو بدل کا مہنگائی سے کیا تعلق۔ کیا چہرے بدلنے سے مہنگائی ڈر کے مارے بھاگ جائے گی یا خوشی کے مارے حرکت قلب بند ہونے سے دم توڑ دے گی۔ شکر ہے وزیر اعظم کو اس بات کا احساس ہے کہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں بے موت مارے جا رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے اگر وزیر اعظم اس عفریت کو مار دیں یا کم از کم بوتل میں بند کر دیں تو عوام الناس اطمینان کا سانس لیں گے۔ اس وقت ملک کے 22 کروڑ عوام مہنگائی کی صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو سستی اور لوگوں کی دسترس میں ہو۔ سوائے ہوا کے کہ وہ کس کے اختیار میں نہیں ورنہ سانس لینا بھی ممکن نہیں رہتا۔ بہرحال کھانے پینے پہننے اوڑھنے سے لے کر رہن سہن سے وابستہ ہر چیز مہنگی ہی نہیں بہت مہنگی ہو چکی ہے۔ اس لیے وزیر اعظم اپنے وزراء کے چہرے یا محکمہ تبدیل کرنے کی بجائے ایک قدم آگے بڑھیں اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری خود سنبھال لیں یوں کسی کی جرأت نہیں ہو گی کہ وہ وزیر اعظم کے مقابلے پر آ کر اپنی من مانی کرے۔ وزیروں کا کیا انہیں تو کوئی بھی پٹا سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭