پاکستان تحقیق اور غور و فکر کے بحران سے بھی دوچار رہا ہے۔ ہمارے اکثرحکمران ایڈہاک ازم کی بنیاد پر کاروبار مملکت چلاتے رہے ہیں۔ مستقل حکمت عملی اور منصوبہ بندی نہ ہونے کی بناء پر سیکورٹی اور اکانومی میں عدم توازن پیدا ہو گیا۔ پاکستان کے سابق سفیر جناب جاوید حسین نے عالمی گرینڈ سٹریٹجی کے بارے میں شہرۂ آفاق کتاب ''PAKISTAN AND WORLD IN DISORDER'' لکھی ہے جس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کو مضبوط دفاع کے ساتھ مستحکم معیشت پر توجہ دینا ہو گی اور روس کے تجربے سے سیکھنا ہو گا کہ مضبوط اورمستحکم معیشت کے بغیر مضبوط دفاع ممکن نہیں ہوتا۔ بدقسمتی سے پاکستان آج بھی ایک سیکورٹی سٹیٹ ہے اور ستر سال کے بعد بھی ہم پاکستان کو ویلفیئر سٹیٹ نہیں بنا سکے۔ معاشی بحران کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس لیڈر نے کہا تھا کہ ’’میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کر لوں گا اسے اقتدار سنبھالنے کے صرف دو ماہ بعد عالم اسلام کی واحد ایٹمی ریاست کو معاشی طور پر دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ اپنے دوست ممالک کے پاس کشکول لیکر جانا پڑا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے 2013ء کے انتخابات میں قوم سے کشکول توڑ دینے کا وعدہ کیا تھا مگر امر واقعہ یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہ صرف کشکول لے کر آئی ایم ایف کے پاس گئی بلکہ پانچ سال اقتدار میں رہنے کے بعد خالی کشکول نئی منتخب حکومت کے حوالے کر کے رخصت ہو گئی۔
پاکستانی سیاست دان قومی مسائل پر بیان جاری کرنے سے پہلے ہوم ورک نہیں کرتے اور بعد میں انہیں ’’یوٹرن‘‘ لینا پڑتا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا سعودی عرب کا دورہ کامیاب رہا۔ سعودی عرب نے پاکستان کو سنگین معاشی مشکلات سے نکالنے کیلئے چھ بلین ڈالر کا ریلیف پیکیج دیا ہے جسکے مطابق تین بلین ڈالر کا عارضی قرضہ دیا جائیگا اور ایک سال کیلئے تین بلین ڈالر تیل کی ادائیگی مؤخر کر دی جائیگی۔ پاک سعودی تعلقات ہمیشہ برادرانہ اور خوشگوار رہے ہیں۔ سعودی عرب وہ دوست ہے جو ضرورت کے وقت کام آئے کے سنہری اصول پر عمل کرتارہا ہے۔ 1998ء میں جب ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے امریکہ نے پاکستان پر معاشی پابندیاں لگائیں سعودی عرب نے پاکستان کو چند سال مفت تیل سپلائی کیا۔ سعودی عرب نے 2014ء میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم بنانے کیلئے ڈیڑھ بلین ڈالر کا گفٹ دیا۔ سعودی عرب نے بلوچستان میں آئل ریفائنری کے سلسلے میں سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔ پاکستان بھی مکہ اور مدینہ کی وجہ سے سعودی عرب کی سیکورٹی میں خصوصی دلچسپی لیتا ہے جو دنیا بھرکے مسلمانوں کے مرکز و محصور ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب میں عالمی سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کیا جسکے مثبت اثرات مرتب ہوئے اور توقع کی جا رہی ہے عالمی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کرینگے۔ کرکٹ ورلڈ کپ، شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کی بناء پر عمران خان کو عالمی شہرت حاصل ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ نے عمران خان کو امین اور صادق قرار دیا جس سے انکے امیج میں اضافہ ہوا۔ دنیا کے اہم ممالک عمران خان پر اعتماد کرتے نظر آتے ہیں۔
اپوزیشن نے حکومت سے جائز سوال پوچھا ہے کہ سعودی عرب سے کن شرائط پر قرضہ لیا گیا ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دوٹوک جواب دیا ہے کہ سعودی ریلیف پیکیج بلا مشروط ہے۔ سعودی عرب کے دورے سے واپسی پر عمران خان نے پاکستانی قوم کو اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ وہ عوام کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط سے بچانے کیلئے دوست ممالک سے عارضی مالی تعاون کی اپیل کررہے ہیں تاکہ ریاست کو کم سے کم قرض کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو آج جن مشکلات کا سامنا ہے اسکی ذمے داری گزشتہ حکومت پر عائد ہوتی ہے جس نے ایک جانب ریکارڈ توڑ قرضے لئے اوردوسری جانب قومی سرمایہ منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر چلا گیا اورریاست بدترین معاشی بحران کا شکار ہو گئی۔ عمران خان نے اپنے قوم سے خطاب میں جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ کسی سے این آر او نہیں کیا جائیگا اور وہ عوامی مینڈیٹ کیمطابق کسی لٹیرے کو نہیں چھوڑیں گے اور احتساب کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ عمران خان کا احتساب کے سلسلے میں تجدید عزم قابل ستائش ہے البتہ انہیں جارحانہ انداز اختیار کرنے کی بجائے آئین اور قانون کی رٹ نافذکرنی چاہئے۔ ریاست کا آئین اور قانون ہی اسکی طاقت ہوتے ہیں۔ بات اس وقت بگڑتی ہے جب قانون کا اطلاق یکساں نہیں کیاجاتا۔ عمران خان کے پاس عوامی مینڈیٹ کی طاقت اور آئین و قانون کی قوت موجود ہے۔ ان کو پنجابی فلموں کے معروف ہیرو سلطان راہی کی طرح بڑھکیں مارنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب عمران خان اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ بیوروکریسی ان سے تعاون نہیں کر رہی تو عوام حیران ہوتے ہیں کہ وہ عوام دشمن بیوروکریٹس کیخلاف اپنا آئینی اختیار استعمال کرنے سے کیوں قاصر ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے منتخب ہونے کے بعد ان 1200 سول سرونٹس کوجبری ریٹائر کر کے گھر بھیج دیا تھا جو پی پی پی کے انتخابی منشور کے خلاف تھے اور آئین کے مطابق منتخب حکومت سے تعاون کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ امریکہ میں بھی منتخب حکومت ہزاروں بیورو کریٹس کو تبدیل کر کے اپنے ہم خیال بیورو کریٹس کو تعینات کرتی ہے تاکہ انتخابی ایجنڈے پر کسی رکاوٹ کے بغیر عملدرآمد کر سکے۔ منتخب حکومت عوام کو جواب دہ ہوتی ہے اگر وہ اپنے پروگرام پر عمل کرنے میں ناکام ہو جائے تو عوام اس کا یہ عذر تسلیم نہیں کرتے کہ بیوروکریسی نے اس سے تعاون نہیں کیا۔ عوام کو نئی حکومت کی مشکلات کا ادراک ہے البتہ عوام یہ چاہتے ہیں کہ حکمران پورے جذبے اور جنون کے ساتھ ریاستی نظم و نسق چلاتے نظر آئیں اور انکی فعال اور متحرک کارکردگی سے عوام کے دلوں میں اعتماد پیدا ہو کہ انکی مشکلات عارضی ہیں اور بہار کے دن آنے والے ہیں۔
اپوزیشن جماعتوںنے اے پی سی بلا کر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے امکانات کا جائزہ لینے کا اعلان کیا ہے جو ان کا آئینی اور جمہوری حق ہے البتہ سیاست میں ٹائمنگ بڑی اہم ہوتی ہے۔ حکومت وقت کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک اس وقت لائی جاتی ہے جب ایسی صورت حال پیدا ہو جائے کہ حکومت عوام کا اعتماد کھو بیٹھے ا ور اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں اراکین کی مطلوبہ حمایت حاصل ہو۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنما احتساب کے شکنجے میں بری طرح پھنس چکے ہیں۔ ان حالات میں عدم اعتمادکا خواب پورا ہونا ممکن نہیں ہے۔ 1989ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی اس وقت پنجاب میں اپوزیشن کی حکومت تھی۔ اپوزیشن کو اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد حاصل تھی۔ اسامہ بن لادن نے سرمایہ بھی فراہم کیا تھا اسکے باوجود تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تھی۔ تحریک انصاف کی مرکز اور تین صوبوں میں حکومت ہے۔ طاقتور ریاستی ادارے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عوام احتساب کا منطقی انجام دیکھنا چاہتے ہیں اور حکومت کو پورا موقع دینا چاہتے ہیں۔ دنیا کے اہم ممالک کا تعاون حکومت کو حاصل ہے۔ ان حالات میں حکومت گرانے کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کی قیادت احتساب سے بچنے کیلئے ہر حربہ استعمال کریگی۔ مزاحمت کیلئے حالات سازگار نہیں ہیں البتہ مفاہمت کے امکانات موجود ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت میں ایسے درجنوں افراد موجود ہیں جو احتساب کی زد میں آ سکتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی دلی خواہش ہے کہ انکی ریٹائرمنٹ سے پہلے لوٹی ہوئی دولت ملکی خزانے میں واپس آ جائے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ ایسا راستہ نکال سکتی ہے کہ منی لانڈرنگ اور میگا کرپشن میں ملوث افراد کو دولت واپس کرنے کا موقع فراہم کر دیا جائے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024