ہفتہ ‘ 17؍ صفر المظفر1440 ھ ‘ 27اکتوبر 2018ء
ٹنڈو محمد خان میں غریب دھوبی کے جعلی اکائونٹ سے ایک کروڑ کی ٹرانزکشن ہوئی، کوئی کمپنی ہے نہ اکائونٹ متاثرہ شخص کی میڈیا سے گفتگو
کھاتے دکھانے کیلئے طارق سعید غوری کو لیٹر ایف آئی اے کے ان افسروں کی طرف سے لکھا گیا جو جعلی اکائونٹس کے حوالے سے بنائی گئی جے آئی ٹی کا حصہ ہیں۔ دھوبی غوری کا نام شاید بابر غوری کے ساتھ تعلق کے شبہ میں زیر غور آیا ہو اس غریب نے اکائونٹ کھلوایا نہ کسی کمپنی کا منہ دیکھا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ صرف روزانہ دو سو روپے کما کر گزارہ کرتا ہے۔ دو سو روپے تو ایک سوٹ ہی کا لیتا ہوگا۔ وہ منی لانڈرنگ کے الزام سے بچتا ہے تو صادق اور امین والی شق کے تحت جرم کا مرتکب اور سزا کا مستوجب ہوسکتا ہے۔ اسے وہ کمپنی دیکھنے اور اس اکائونٹ سے استفادہ کرنے کی کتنی حسرت ہوگی جس میں ایک سو چار لاکھ روپے آئے اور نکل گئے جو گھر کے رہے نہ گھاٹ کے، وہی لے گیا، تھے وہ جس جاٹ کے۔ اب تک جتنے جعلی اکائونٹ پکڑے گئے ان میں سے کئی کی مالیت اربوں کی بھی ہے۔ ایک سات کروڑ کا اکائونٹ پکڑا گیا تو اکائونٹ ہولڈر نے کہا اکائونٹ چونکہ میرے نام کا ہے گو میں نے پیسے جمع نہیں کرائے مگر اب یہ میرے ہیں۔ اس کے سامنے ہتھکڑی لہراکر منی ٹریل پوچھی گئی تو وہ پائوں پڑ گیا۔ ایک ایسا اکائونٹ ہولڈر بھی سامنے آیا جس کے اکائونٹ میں دو ہزار روپے تھے۔ اس کے اکائونٹ میں دو ارب روپے آوارہ گردی کرتے آئے تو ساتھ اس کے پندرہ سو بھی لے گئے۔
٭…٭…٭…٭
مولانا فضل الرحمن کا کردار پرائی موت پر رونے والا ہے، وزیر اطلاعات فواد چودھری
مولانا فضل الرحمن کے بارے میں فواد چودھری کا بیان انکے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ وہ پرائی موت پر نہیں اپنے ارمانوں کی موت پر نوحہ کناں ہیں۔ کس بری طرح سے ان کو گنڈا پور نے ہرا دیا۔ مولانا تو ان کو گنڈیری اور گنڈھے (پیاز) سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ مولانا دونوں سٹیوں سے ہارے تو کاروبار سیاست لپٹ گیا۔ پچھلی صدی سے الاٹ ہونیوالے سرکاری گھر سے بے گھر ہونا پڑا۔ کشمیر کمیٹی دائمی طور پر انکے نام سے چپک گئی تھی، وہ اب اداس پھرتی ہے۔ مولانا سیاست میں اعلیٰ اور جمہوریت میں بالا مقام رکھتے ہیں۔ حکومت بنانے میں ماہر، گرانے میں طاق ہیں اور کسی کو اچھی لگے یا بری دل کی بات منہ پر کرنے میں بے باک ہیں۔ اپنے بے باکانہ کردار سے مشرف، زرداری اور نوازشریف کو ان کے دور حکمرانی میں شیشے میں اتارے رکھا اور حرام ہے مراعات یا وزارت کا کوئی تقاضا کیا ہو۔ وہ تو پہلے زرداری اور پھر نوازشریف نے کشمیر کمیٹی کی سربراہی گوڈے چھو کر انکے سپرد کر دی جسے مولانا نے اپنی طرح مستقل مزاج بنا دیا: …؎
جورُ کے توکوہ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گئے
خود اور کمیٹی کوہ گراں ثابت ہوئی، جہاں تھی وہیں رہی ۔ کیا اس کو چلانے اور آگے بڑھانے کیلئے جاں سے گزر جاتے؟ البتہ اب اپوزیشن کو چلانے اور آگے بڑھانے اور حکومت کے کندھے پر لا بٹھانے کیلئے آخری حد تک جا رہے ہیں۔ اب شاید فیض کے شعر کے دوسرے مصرع پر عمل پیرا ہونے پر آمادہ ہیں ۔ مولانا کی خیر ہو اپوزیشن کی خیر ہو۔ جمہوریت کی خیر ہو نہ ہو اس کی اتنی ضرورت نہیں کیونکہ سدا بہار سیاستدانوں کا اقتدار سلامت رہتا ہے جو جمہوریت سے مشروط نہیں۔
مہارانی جنداں کا ہار ایک کروڑ 70لاکھ روپے میں نیلام
مہراجہ رنجیت سنگھ کی ویسے تو لاتعداد رانیاں تھیں لیکن معمولی پس منظر رکھنے والی مہارانی جنداں کو رنہایت حسین و جمیل اور ذہین تھی، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت میں ستلج تک پنجاب، سندھ، کشمیر اور کابل تک کا علاقہ شامل تھا، کہا جاتا تھا کہ اتنی وسیع و عریض سلطنت کے مطلق العنان حکمران رنجیت سنگھ کا دل مہارانی جنداں کو رکا محکوم تھا۔ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد مہارانی جنداں کور کے سوا ساری رانیاں ستی ہو گئیں، رانی جنداں کے بطن سے پیدا ہونے والا رنجیت سنگھ کا نا بالغ بیٹا مہاراجہ دلیپ سنگھ تخت لاہور پر براجمان ہوا لیکن اصل اقتدار رانی جنداں کور کے ہاتھ میں تھا ۔ رنجیت سنگھ کی آنکھیں بند ہوتے ہی سکھ سلطنت طوائف الملوکی کی شکار ہو گئی، سکھ فوج نہایت منظم اور طاقتور تھی۔ انگریز بھی سکھ فوج کی عسکریت سے خوف کھاتے تھے۔ رانی جنداں نے سکھ سرداروں کی سازشوں سے تنگ آکر اور بیٹے مہاراجہ دلیپ سنگھ کی زندگی کو خطرے میں دیکھ کر سکھ فوج کو بہلا پھسلا کر اور بھاری انعامات کے لالچ دے انگریزوں سے بھڑا دیا۔ ستلج اور چناب کے کناروں پر سکھوں اور انگریزوں کے درمیان خوفناک جنگیں ہوئیں، جن میں علی وال، مدکی ، چیلیانوالہ اور رسول نگر (رام نگر) کے معرکے زیادہ مشہور ہیں۔ بہرحال یہ جنگ انگریزوں نے جیت لی، سکھ سلطنت انگریزوں کے قبضے میں چلی گئی، مہاراجہ دلیپ سنگھ کو وظیفہ دے کر لندن بھیج دیا گیا اور کوہ نور ہیرے سمیت دیگر قیمتی نوادرات ، تاج برطانیہ کی زینت بنا دیئے گئے۔ دلیپ سنگھ نے برطانیہ پہنچ کر مسیحیت اختیار کر لی۔ 1848ء میں ہونے والی اس جنگ کا ہولناک نتیجہ یہ تھا کہ مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کو ڈوگرہ گورنر گلاب سنگھ کے ہاتھ محض75لاکھ روپے میںفروخت کر دیا گیا۔
٭…٭…٭…٭
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں انوکھے انوکھے واقعات سننے میں آتے ہیں، لیکن بیلجئم کے دارالحکومت برسلز میں ہونے والی واردات خاصی دلچسپ اور عجیب ہے۔ چھ ڈاکو دن دیہاڑے لوٹنے کے ارادے سے ایک دکان میں داخل ہوئے،دکاندار نے انہیں’’مخلصانہ‘‘ مشورہ دیا کہ فی الحال تو ’’بوہنی‘‘ بھی نہیں ہوئی، شام کو آنا، سات آٹھ گھنٹے بعد جو رقم جمع ہو جائے گی نیاز مندانہ طور پر پیش کر دی جائے گی، چنانچہ وہ دکاندر کی ’’خیر خواہی‘‘ اور ڈاکو نوازی سے بہت متاثر ہوئے اور چلے گئے۔ حسب قرارداد شام کو آئے تو تاک میں بیٹھی پولیس نے دبوچ لیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکو بہت بھلے مانس اور کلچرڈ تھے ورنہ کوئی اور ہوتے تو کہہ دیتے کہ نو نقد نہ تیرہ ادھار لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ڈاکو، مولا بخش کی طرح عقل سے پیدل ہوں۔ مولا بخش کا قصہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے نقب لگانے کی کوشش کرتے، چور کو پکڑ لیا اور اُسے پولیس کے حوالے کرنے کیلئے تھانے چل پڑا ۔راستہ میں چور نے اسے کہا بھائی جان! مجھے سخت سردی لگ رہی ہے کہ مگر افسوس چادر تمہارے گھر بھول آیا، تم یہیں رکو میں بھاگ کر لے آتا ہوں۔ مولا بخش نے ’’برادر عزیز‘‘ کو بخوشی اجازت دیدی۔ ظاہر ہے کہ چور مولا بخش سے زیادہ سیانا تھا۔ چنانچہ وہ رات بھر سڑک کنارے ٹھٹھرنے کے بعد واپس آ گیا۔ کچھ عرصہ بعد تاریخ نے اپنے آپکو دہرایا، مولا بخش حسب سابق اسے پکڑ کر تھانے لے چلا اور راستے میں چور نے پھر وہی عذر کیا تو مولا بخش بولا‘ کیا تو نے مجھے اتنا احمق سمجھ رکھا ہے کہ میںدوبارہ دھوکہ کھا جائوں گا لہٰذا تم یہی رکو اور میں خود تمہاری چادر لاتا ہوں۔