خوں خوار تکون
عبدالباسط مرزا
abmrza@gmail.com
تقسیم ِہندوستان کے قوائد کی رو سے غالب مسلم اکثریت، جغرافیائی محل وقوع، تاریخی سچائیوں، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی تقاضوں کے پیش ِنظر ریاست ِ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا تھا لیکن کشمیری عوام کو حق خود ارادیت سے محروم ، الحاق پاکستان سے باز اور ہندوانہ تسلط بر قرار رکھنے کے لیے ایک ’’خوں خوار تکون ‘‘وجود میں آئی ۔ کانگریس (ہندو استعمار)، لارڈ ماؤنٹ بیٹن(انگریز سامراج) اور مہاراجہ ڈوگرہ اس تکون کا تیسرا سازشی بازو ہے، تینوں ہی کشمیری عوام کے مجرم ان کی گردنوں پر لاکھوں کشمیریوں کا خون ہے، اس لیے میں اسے ’’خوں خوار تکون‘‘ کہتا ہوں۔ہندوستان کے بد نیت حکمرانوں نے زبان سے مکرتے ہوئے ریاست کشمیر میںمسلم اکثریت ہونے کے باوجود پاکستان میں شامل ہونے سے روکنے ،نوزائیدہ مملکت کے دفاعی اور معاشی نظام کو مفلوج کرنے کے لیے مکروہ چالیں چلنا شروع کر دیں۔ڈوگرہ حکومت کے وحشیانہ و بیہمانہ رویے بارے عطاء الحق سہروردی نے ’’دی ٹریجڈی آف کشمیر‘‘ میں لکھا ہے کہ ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ آزادی کے متوالوں کی کھالیں اُتارنے کا حکم دیتا اور پھر اس کا مشاہدہ بھی کرتا تھا، پونچھ پر قبضہ کرکے گلاب سنگھ نے وہاں قتل عام کروایا، منگ کے مقام پر مجاہدین ِحریت کو درختوں کے ساتھ اُلٹا لٹکا کر زندہ ان کی کھالیں کھنچوائیں، پھر اس نے ان کھالوں میں بھُس بھر وا کر’’ دھی ڈھک ‘‘ کے مقام پرعوام میں اپنے قہر و غضب کی دھاک بٹھانے کے لیے رکھ دیا۔غلام نبی خیال اپنی تصنیف ’’تحریک آزادی کشمیر اور علامہ اقبال‘‘ میں کہتے ہیں کہ 1865ء میں شال کی صنعت پر عائد کیے جانے والے ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف سرینگر کے شالبا فوں نے جب ڈوگرہ کیخلاف علم بغاوت بلند کیا تو ظالموں نے ان کی بڑی تعداد کو دریائے جہلم کی موجوں کی نذر کر دیا ۔یہ تکون کے ایک بازوڈوگرہ کا بے نقاب چہرہ تھاجس سے نجات حاصل کرنے کے لیے کشمیریوں نے الحاق پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔انگریز سامراج کی نظر میںکشمیر اور کشمیریوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ 16 مارچ 1846ء کو پنجاب کے شہر امرتسر میں انگریزوں اور گلاب سنگھ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا، اس معاہدہ کی رو سے انگریزوں نے گلاب سنگھ کو دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے راوی کے مغرب کے تمام علاقے انسان، حیوان، چرند، پرند سب محض 75 لاکھ روپے کے عوض فروخت کر ڈالے اور چند روپے فی کشمیری پوری قوم کو ڈوگرہ راج کے تسلط میں دے دیااور انگریز کی اسی مادیت اور مفادپرستی کا سلسلہ لارڈمائونٹ بیٹن تک ریاست کے الحاق ِپاکستان کی راہ میں سازشی کردار کی صورت نظر آتا ہے ۔انگریز کی بد نیتی یہاں سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ تقسیم کے وقت مسلم و غیر مسلم اکثریتی علاقوں کے مابین حد فاصل قائم کرنے کے لیے سر ریڈ کلف کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس میں دو ممبر جسٹس دین محمد اور جسٹس محمد منیرمسلمان جبکہ دوغیر مسلم جسٹس مہر چند مہاجن اور جسٹس تیجاسنگھ شامل تھے۔ریڈ کلف نے نہرو کی خواہش اورمائونٹ بیٹن کی ہدایت پر سرحدوں کے تعین میں ڈنڈی مارتے ہوئے گورداسپور اور پٹھانکوٹ کے مسلم اکثریتی اضلاع بھارت میں شامل کردئیے اور بھارت کو کشمیر تک زمینی راستہ فراہم کر دیا، جس کے بعد ہندوستان نے ریاست کی بھارت میں شمولیت کے لیے نہ صرف اپنی فوج وہاں اتاری بلکہ خون کی ہولی بھی کھیلنی شروع کر دی، اکتوبر 1947ء سے لے کر آج تک ہندوانتہا پسند اس خطہ ٔارض کو فتح کرنے کی ناکام کوششوں میں لگے ہیں۔ ایک پوری صدی کے ڈوگرہ استعمار کے بطن سے ظلم و جبر، استحصال اور غلامی نے جنم لیاتھا۔ تکون کے تیسرے بازو ہندو استعمار کو یوں بھی دیکھیں کہ31 جولائی 1947ء کو اصولوں کے بچاری مہاتما گاندھی سرینگر پہنچے۔ اپنے سرینگر آنے کی توجیہ انہوں نے یوںبیان کی کہ 1919 ء میں ’’کھمب میلہ‘‘ کے موقع پر مہاراجہ پرتاب سنگھ نے انہیں کشمیر آنے کی دعوت دی تھی، اس وقت وہ ستیہ گرہ تحریک کی مصروفیات کے باعث نہیں آ سکے تھے لہذااب وہ پرتاب سنگھ سے کیا گیا وعدہ ایفا کرنے آئے ہیں لیکن درپردہ مقاصد میں ہری سنگھ کو بھارت سے الحاق پر آمادہ کرنا تھا،ہندو ہونے کے سبب وہ پہلے ہی ہندوستان سے الحاق کا آرزو مند تھا تاہم وہ غالب مسلم اکثریت کے ردعمل کے ڈر سے لیل و لیت سے کام لے رہا تھا۔یہ وہ’’خوں خوار تکون‘‘ تھی جس کی سازشوں اور مظالم سے عاجز آکر کشمیریوں نے پاکستان میں شامل ہونے ،پر امن اور آزاد فضائوں میں سانس لینے کے خواب دیکھے تھے لیکن اس تکون نے ایک دن کے لیے بھی یہ خواب پورا نہیں ہونے دیا۔
آج ریاست ِکشمیرچار بڑے حصوں میں منقسم ہے۔ جموں ،مقبوضہ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان۔جموں کی اکثریت غیر مسلم ہے ، مقبوضہ،آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔آزاد کشمیر میں الگ حکومت جس کے صدر ،وزیر اعظم،وزراء اور اعلیٰ عدالیہ ودیگر عناصر الگ ہیں۔گلگت بلتستان میں وفاق کی زیر نگرانی صوبائی طرز کی حکومت قائم ہے جس کے وزیر اعلیٰ ،گورنر اور وزراء الگ ہیں جبکہ جموں اور مقبوضہ کشمیر میں الگ نظام ِحکومت قائم ہے، یوں ریاست کے حصے بخرے کرنے میں بھی یہی خوں خوار تکون ملوث ہے ۔ بھارت نے کشمیریوں پر اپنی جارحیت کا آغاز اس دلیل سے کیا تھا کہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کسی دستاویز پر دستخط کر کے فوجی مدد کی درخواست کی صورت میں کیا تھا۔’’ الیسٹرلمب‘‘ نے ایسی کسی دستاویز کی موجودگی سے انکار کیا ہے جبکہ ہری سنگھ کے بیٹے کرن سنگھ کا بیان اس حوالے سے ثبوت ہے کہ 26 اکتوبر کو مہاراجہ کا قافلہ سری نگر اور جموں کے درمیان سفر پر تھا، اس روز مہاراجہ نے کسی دستاویز پر دستخط نہیں کیے تھے۔بھارتی موقف اس لحاظ سے بھی کمزور اور دھوکے پر مبنی ہے کہ درحقیقت مہاراجہ کا اقتدار ریاست سے عملاً ختم ہو چکا تھا، کشمیری آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور وہ ایک بگھوڑے کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اس لیے اُس کی دستخط کردہ کسی دستاویزکی بنیاد پر ریاست کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ نہیں ہو سکتا تھا۔یوم سیاہ تجد ید عہد کا دن، آزاد کشمیر اور پاکستان کی حکومتوں کوریاست پر ناجائز جابرانہ تسلط کے خاتمے کیلئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف راٖغب کرتاہے ۔مقبوضہ کشمیر کے محکوم عوام کے لیے ہم پر یہ بار عائد ہے کہ ہم بھارت کے غاصب حکمرانوںاور اس کی قابض افواج کے خلاف عملی جدوجہد میں مصروف رہیںتاکہ کشمیری بھارتی حاکمیت سے آزادی حاصل کر کے الحاق پاکستان کی صورت میں پر امن کشمیر کی عملی تصویر دیکھ سکیںاور خوں خوار تکون بھی اپنے مقاصد کو بھسم ہوتا دیکھے۔