تقسیم ہند کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے 27 اکتوبر 1947 کو اپنے فوجی وادی کشمیر میں اتارے۔کشمیریوں نے پہلے دن سے ہی بھارت کے ناجائز قبضے کو تسلیم نہیں کیا اور اس تسلط کے خلاف جدوجہد شروع کر دی۔
یکم جنوری 1948 کو بھارت اقوام متحدہ میں چلا گیا۔اقوام متحدہ نے جنگ بندی اور لوگوں کی خواہشات کے مطابق فیصلہ کرنے کیلئے ورلڈ باڈی مقرر کی۔اس کمیشن نے جنگ بندی اور سیز فائر لائن مقرر کی۔تاہم وادی سے بھارتی مسلح افواج کو نہیں نکالا گیا۔
اس حد بندی کے مطابق ایک لاکھ انتالیس ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ بھارت جبکہ تراسی ہزار 807 مربع کلومیٹر کے علاقے پر ریاست آزاد جموں کشمیر قائم ہوئی۔1957 تک بھارتی حکمران یہی کہتے رہے کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دینگے لیکن ان کا یہ وعدہ آج تک وفا نہیں ہو سکا۔
تمام پرامن طریقوں سے اپنا حق حاصل کرنے کی کوششوں کے بعد کشمیریوں نے 1989 میں عوامی تحریک شروع کر دی۔اس تحریک نے 2004 میں بھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کر دیا۔دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے جس کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔بھارت نے ہمیشہ ان مذاکرات سے بھاگنے کی کوشش کی اور انہیں نتیجہ خیز بنانے کی راہ میں رکاوٹ بنتا رہا۔بھارتی ظالم افواج پچھلے 27 سال میں چورانوے ہزار 548 کشمیروں کو شہید کر چکی ہے،اس عرصے میں 22 ہزار 826 خواتین سے ان کے سہاگ چھین لئے گئے۔
ایک لاکھ 7 ہزار 591 بچوں کو یتیم کر دیا گیا جبکہ 10 ہزار 717 سے زائد خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو لاپتہ کر دیا گیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔اکتوبر وہ پہلا دن تھا جس دن بھارتی فوج نے اپنے ناپاک قدم جنت نظیر وادی کشمیر میں رکھے اور اس دن کے بعد سے آج تک کشمیریوں نے سکھ کا سانس نہیں لیا۔کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے لیکن ان کے حوصلے آج بھی بلند ہیں،بھارتی بربریت کے خلاف ان کی آواز آج بھی دبائی نہیں جا سکی ہےبلکہ یہ آواز ہر گزرتے دن کے ساتھ پہلے سے زیادہ بلند اور توانا ہوتی جا رہی ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024