وفاقی دارالحکومت کی عمل داری کا امتحان
نواز رضا
2نومبر2016ء کی آمد آمد ہے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے ’’طبل جنگ‘‘ بج چکا ہے انہوں نے اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کر رکھاہے تو دوسری طرف سے وفاقی حکومت نے ہر قیمت پر اسلام آباد میں کاروبار زندگی کو جاری و ساری رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ لہذا حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان تصادم کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ عمران خان جو کل تک اس زعم میں مبتلا تھے کہ وہ تن تنہا 2نومبر2016 ء کا معرکہ سر کر لیں گے لیکن انہیں جلد اپنی’’ سیاسی تنہائی‘‘ کا احساس ہو گیا ہے۔ جس کیلئے انہیں کینیڈا میں ’’محو آرام‘‘ اپنے ’’ناراض سیاسی کزن‘‘ ڈاکٹر طاہر القادری سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے ان سے تعاون کی درخواست کر نا پڑی ہے، اور ان سے اپنی پارٹی کے طرز عمل پر معافی مانگنا پڑی۔ انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کو 2 نومبر 2016ء کو اسلام آباد کے دھرنے میں شرکت کرنے کی باضابطہ طور پر دعوت بھی دے دی ہے۔ جس کے بعد عوامی تحریک کے دھرنے میں شرکت پر آمادگی کا اظہار کر دیا ہے ابھی تک واضح نہیں کہ ڈاکٹر طاہر القادری بنفس نفیس دھرنے میں شرکت کریں گے کہ نہیں ،ان کی جماعت کی شرکت علامتی ہو گی یا بھر پو ر۔ بہر حال اسے عمران خان کی’’ سیاسی کامیابی‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے ’’سیاسی کزن‘‘ کو منانے میں کامیاب ہو گئے ۔ البتہ ایک بات واضح ہے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے راستے الگ ہو چکے ہیں ۔ عمران خان کی توپوں کا رخ پیپلز پارٹی کی طرف ہو گیا ہے اب وہ نواز شریف اور آصف زرداری دونوں کو ’’چور اور ڈاکو‘‘ کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں ، لہذا موجودہ صورت حال میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مل بیٹھنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ’’ اسلام آباد بند کرنے کیلئے10ہزار لوگ بھی کافی ہیں،اگر فوج آئی تو ذمہ دار سب سے پہلے عمران خان ہونگے اس کے بعد نوازشریف ہونگے۔،عمران بتائیں انہیں کس نے یقین دلایا ہے کہ انگلی اٹھنے والی ہے پہلے تو’’ آشا پاشا‘‘ نے یقین دلایا ہوگا،اب یقین کس نے دلایا ہے ؟ سب سمجھتے ہیں کہ فیصلے کہاں ہوں گے،عمران خان کو فوج کو سیاست میں نہیں گھسیٹنا چاہیے اور عمران کو’’ بچہ جمہورا‘‘نہیں بننا چاہیے،لگتا ہے‘‘ ۔ اب تک عمران خان کے دھرنے کو صرف عوامی تحریک ،عوامی مسلم لیگ ہو سکی ہے سنی تحریک بھی آج کل فیصلہ کرنے والی ہے جماعت اسلامی نے تو عمران خان کے دھرنا سے الگ تھلگ اپنے ایجنڈے کے مطابق کرپشن کے خلاف تحریک شروع کر رکھی ہے اس نے تحریک انصاف کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے ۔ مسلم لیگ (ق)کے سینئرمرکزی رہنما و سابق نائب وزیراعظم چودھری پرویزالٰہی سے پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے ملاقات کی ہے اور ان سے 2نومبر کے دھرنے 2میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کو شریک کرنے کیلئے رابطوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔ چودھری پرویزالٰہی نے کہا ہے کہ دھرنے کا مقصد ملک کو موجودہ بادشاہت اور کرپٹ نظام سے نجات دلانا ہے اس لیے تمام اپوزیشن جماعتوں کی دھرنے میں شرکت ضروری ہے۔ اس وقت پوری قوم ایک خاندان کے غلط فیصلوں کی وجہ سے قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہے اور ان میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ تاحال انہوں نے بھی دھرنا میں شرکت کا باضابطہ اعلان نہیں کیا عمران خان نواز دشمنی میں تمام حدود عبور کر گئے ہیں اب وہ انہیں ’’ سیکیورٹی رسک ‘‘ کی’’ گالی‘‘ دے رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ’’ ہم جب کچھ کرنا چاہتے تو کچھ نہ کچھ ہو جاتا ہے، پتہ چلنا چاہیے کہ ملک کے میر جعفر اور میر صادق کون ہیں ؟‘‘ وفاقی حکومت نے2نومبر2016ء کو اسلام آباد کو ہر قیمت پر کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا ہے دھرنا2 روکنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے اس سلسلے میں وزیر اعظم محمد نواز شریف نے دھرنا روکنے کے لئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ’’فری ہینڈ‘‘ دے دیا ہے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ’’بلوائیوں ‘‘ کو روکنے کے لئے ’’رینجرز اور پنجاب پولیس ریزرو‘‘ کی 5ہزار کی نفری طلب کر لی ہے’’ رینجرز اور پنجاب پولیس ریزرو‘‘ کے دستوں نے اسلام آباد پہنچنا شروع دیا ہے بھاری تعداد میں رینجرز اور پولیس کی نفری کے طعام وقیام کے لئے وفاقی وزارت خزانہ نے46کروڑ روپے کی رقم بھی جاری کر دی ہے ۔ عمران خان ’’ابھی یا کبھی نہیں ‘‘ کے اصول کے تحت تمام کشتیاں جلا کر اسلام آباد میں داخل ہونا چاہتے ہیں لیکن انہیں حکومت کے بدلے ہوئے تیور کا اندازہ نہیں اب کی بار ان کو اسلام آباد پر ’’حملہ آور‘‘ ہونے کے لئے کھلے راستے ملیں گے اور نہ ہی2014ء کا ’’دوستانہ ماحول‘‘ ملے گا ۔ حکومت 2014ء کی غلطیوں کا ازالہ کر ے گی وفاقی حکومت جہاں اسلام آباد کو ’’بلوائیوں ‘‘ کی یلغار سے محفوظ رکھنے کے لئے اقدامات کر رہی ہے وہاں اپوزیشن کی جماعتوں کو تحریک انصاف کے دھرنا 2سے الگ رکھنے کے لئے مذاکراتی عمل بھی شروع کر رکھا ہے ۔ وفاقی وزراٗ محمد اسحقٰ ڈار ،خواجہ سعد رفیق اور میر حاصل بزنجو پر مشتمل وفد نے پیپلز پارٹی کے رہنمائوں سید خورشید شاہ ،چوہدری اعتزاز احسن اور قمر زماں کائرہ سے ملاقات کی ہے اور ان سے موجودہ صورت حال میں حکومت سے تعاون کی درخواست کی ہے ۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے حکومت سے تعاون کوبلاول بھٹو زرداری کے پیش کردہ4مطالبات کی منظوری سے مشروط کر دیا ہے دوسری طرف حکومت نے پیپلز پارٹی کو حکومت اور اپوزیشن کے پانامہ پیپرز لیکس کی تحقیقات کے لئے تیار کردہ بلوں کو پیش نظر رکھ کر قانون سازی کی پیشکش کی ہے دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی البتہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پانامہ پیپرز لیکس کی تحقیقات کے لئے ٹی او آر تیار کرنے پرڈیڈ لاک کے بعد دوبارہ مذاکرات کی بحالی خوش آئند بات ضرور ہے ۔اگرچہ کسی بڑے’’ بریک تھرو ‘‘کا کوئی امکان نظر نہیں آتا البتہ ایک بات واضح ہے حکومت پیپلز پارٹی کو تحریک انصاف کے ’’دھرنا 2سے الگ رکھنے میں کامیاب ہو گئی ہے ۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ’’عمران خان تنہا میدان میں اترنا چاہتے ہیں تو ہم ان کا پیچھا نہیں کریں گے ۔اگر حکومت نے بلاول بھٹو زرداری کے 4نکاتی مطالبات کو تسلیم کر لیا تو ہم حکومت کو کسی مشکل صورت حال میں نہیں ڈالیں گے البتہ انہوں نے اس بات کا بھی عندیہ دیا ہے اگر بلاول بھٹو کے پیش کردہ 4مطالبات کی منظوری میں حکومت کی طرف سے کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو پیپلز پارٹی جمعرات کے روز اپنے احتجاجی پرو گرام کا اعلان کر دے گی ۔ اگرچہ 2نومبر2016ء کا دھرنا 2۱گست2014کے دھرنا1کا ایکشن ری پلے ہے ۔عمران خان حکومت الٹانے کے لئے مہم سر کرنے جیسا طرز عمل ظاہر کر رہے ہیں اب تو ان کے رویے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنا سب کچھ دائو پر لگا کر اسلام آباد ’’فتح‘ کر نے آرہے ہیں دوسری طرف حکومت نے اسلام آباد کو کھلا رکھنے کے لئے تمام ریاستی وسائل بروئے کار لانے کا فیصلہ کر لیا ہے ایسی صورت حال میں اسلام آباد کی جانب آنے والے تمام داخلی راستوں پر تصادم کی کیفیت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 10 لاکھ لوگ یہاں لانے کا دعویدار اسلام آباد میں 5سے10ہزار تک لانے میں کامیاب ہوتا ہے یا حکومت تحریک انصاف کے دھرنے کو اسلام آباد سے باہر روک دینے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اگر عمران خان چند ہزار لوگوں کے ساتھ اسلام آباد میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تو انہیں مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا ، بصورت دیگر’’ 2014 ء کے بعد یہ ان کی دوسری بڑی ناکامی ثابت ہو گی۔