ملتان کی میئر شپ کیلئے امیدوار آمنے سامنے
راو شمیم اصغر
بلدیاتی اداروں کی مخصوص نشستوں کے انتخابات کیلئے شیڈول کا اعلان ہوتے ہی میئر ملتان کیلئے سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ حالانکہ یہ الیکشن ابھی دسمبر میں ہونے ہیں۔ ضلع کونسل ملتان کی چیئرمین شپ کیلئے کوئی سرگرمی اس لئے نظر نہیں آ رہی کہ جلالپور پیر والا کی قومی اسمبلی کی نشست سے دیوان عاشق بخاری کو جب نااہل قرار دیا گیا تھا تو مسلم لیگ ن نے ضمنی الیکشن میں ان کے صاحبزادے دیوان عباس بخاری کو اس وعدے کے ساتھ ٹکٹ نہ دیا کہ انہیں ضلع کونسل ملتان کا چیئرمین بنایا جائے گا اور ٹکٹ رانا قاسم نون کو دیا گیا تھا۔ یہ انتظامات کامیاب ہوئے اور رانا قاسم نون ایم این اے بن گئے تھے۔ اب دیوان عباس بخاری کے ساتھ وعدہ نبھانے کا وقت آیا تو مسلم لیگ ن کی قیادت نے مخصوص نشستوں کے امیدواروں کے فیصلوں کے دوران ہی دیوان عباس بخاری کو یہ پیغام بھجوا دیا کہ وعدہ کی پاسداری کی جائے گی اور یوں ضلع کونسل ملتان کی چیئرمین شپ کی سرگرمیاں ختم ہو گئیں۔ دوسری ملتان کی میئرشپ کیلئے اس سال کے آغاز یعنی جنوری فروری میں جو امیدوار اپنا اپنا زور لگا کر خاموش ہو کر بیٹھ گئے تھے وہ اب الیکشن سے تقریباً دو ماہ قبل ہی پوری قوت سے میدان میں آ گئے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے ملتان کی میئرشپ کیلئے مسلم لیگ ن کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ میونسپل کارپوریشن ملتان کی 68 نشستوں میں سے مسلم لیگ ن کے پاس 52 نشستیں ہیں۔ پی ٹی آئی کے 12 اور پیپلز پارٹی کا ایک چیئرمین ہیں۔ تین چیئرمین ایسے ہیں جو آزاد ہیں۔ اب 8 نومبر کو مخصوص نشستوں کے انتخابات ہونگے تو متوقع طور پر مسلم لیگ ن کو لیڈیز کی 12 اقلیت کی تین ‘ ٹیکنوکریٹس اور لیبر کی دو دو اور یوتھ کی ایک نشست مزید مل جائے گی۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کے پاس متوقع 91 ووٹوں میں سے 72 ووٹ ہونگے۔ تین آزاد چیئرمین اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہونگے لیکن تادم تحریران کا میل جول مسلم لیگ ن والوں کے ساتھ ہی ہے اور میئر شپ کیلئے جو مسلم لیگی اپنی طاقت کے اظہار کیلئے عشائیوں کا اہتمام کرتے ہیں ان میں یہ آزاد حیثیت رکھنے والے چیئرمین بھی دیکھے گئے ہیں۔ ملتان کی میئرشپ کیلئے اس وقت تک چھ امیدوار ہیں جبکہ مسلم لیگ ن ملتان شہر دو دھڑوں میں تقسیم نظر آرہی ہے۔ ایک دھڑے میں سابق ایم این اے شیخ طارق رشید سابق صوبائی وزیر چودھری وحید ارائیں‘ سابق ٹکٹ ہولڈر ملک انور علی ایم پی اے حاجی احسان الدین قریشی شامل ہیں اور مبینہ طور پر انہیں ایم این اے ملک غفار ڈوگر کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس گروپ کی جانب سے چودھری نوید ارائیں اور منور احسان قریشی امیدوار ہیں۔ اتحاد اس بات پر ہے کہ قیادت جس کو ٹکٹ دے گی اس کی حمایت کی جائے گی۔
دوسرا گروپ ایم پی اے رانا محمودالحسن‘ سابق ایم پی اے حاجی سعید احمد انصاری‘ عامر سعید انصاری‘ مسلم لیگ ن ضلع ملتان کے صدر محمد بلال بٹ‘ جنرل سیکرٹری شیخ اطہر ممتاز‘ شہر تنظیم کے صدر رانا شاہد الحسن پر مشتمل ہے۔ کچھ اراکین اسمبلی غیر جانبدار بھی نظر آتے ہیں۔ ان میں وفاقی وزیر ملک سکندر حیات بوسن ایم پی اے ملک شوکت بوسن‘ ایم پی اے شہزاد مقبول بھٹہ اور محمد علی کھوکھر خاموش ہیں اور میئر شپ کی دوڑ میں کہیں نظر نہیں آتے۔ اس گروپ کی جانب سے حاجی سعید احمد انصاری کے علاوہ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کامیابی کی صورت میں محمد بلال بٹ امیدوار ہونگے۔ ملتان کی میئر شپ کیلئے گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ کے بھتیجے ملک اعجاز رجوانہ اور شیخ عمران ارشد بھی امیدوار ہیں۔ البتہ شیخ عمران ارشد کافی متحرک ہیں۔ پارٹی کی صوبائی قیادت تک ان کی رسائی بھی نظر آتی ہے وہ اب تک کروڑوں روپے کے ترقیاتی فنڈز شہر کیلئے خصوصاً اپنے حلقے کیلئے لا چکے ہیں۔ سابق صوبائی وزیر چودھری وحید ارائیں اپنے بھائی چودھری نوید ارائیں کی اکثریت ظاہر کرنے کیلئے چند روز قبل عشائیے کا اہتمام کر چکے ہیں اور پھر دعویٰ کیا گیا کہ اس میں 43 چیئرمینوں نے شرکت کی ہے۔اس کے جواب میں حاجی سعید احمد انصاری نے دو روز قبل اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور دعویٰ کیا گیا کہ اس میں 45 چیئرمین شریک ہیں۔ ان اجتماعات میں متعدد چیئرمین ایسے تھے جو دونوں میں شریک تھے۔ ٹیکنوکریٹ کی نشست پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے پارٹی کے ضلعی صدر محمد بلال بٹ بھی ایک مضبوط امیدوار قرار دئے جا سکتے ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ طاقت کے اظہار اور تمام تر خوبیاں اس وقت دھری کی دھری رہ جائیں گی جب پارٹی قیادت میئر کے ٹکٹ کا فیصلہ کرے گی۔ ماضی میں بھی یہ ہو چکا ہے کہ چیئرمینوں کی واضح اکثریت ایک طرف کھڑی تھی اور میئر کا ٹکٹ شیخ طارق رشید کو دے دیا گیا تھا اور پارٹی قیادت کے فیصلے پر چیئرمینوں کو حلف توڑ کر ووٹ شیخ طارق رشید کو دینا پڑا تھا۔ حال ہی میں جب مخصوص نشستوں کی ٹکٹوں کیلئے لاہور میں اعلیٰ سطحی اجلاس ہو رہا تھا اس وقت بھی اپنی اپنی اکثریت کے دعوے کئے گئے تھے اور اس وقت بھی اس بات کا برملا اظہار کیا گیا تھا کہ یہ چیئرمین مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ہیں۔ لہٰذا کسی گروپ کی جانب سے انہیں اپنا چیئرمین کہنے کا کوئی جواز نہیں۔ اس ساری صورتحال میں یہ بات واضح ہے کہ اس معروف مثل کے مصداق کہ” سہاگن وہ ہی کہلائے جسے پیا چاہے“ یعنی میئر وہ ہی ہو گا جسے قیادت چاہے گی۔ خرابی یہ پیدا ہوئی ہے کہ ملتان شہر میں خواتین اور لیبر کی نشستوں کیلئے پارٹی کارکنوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ملتان شہر کی خواتین افشین بٹ‘ تہمینہ نور‘ عطیہ ربنواز‘ فہمیدہ چوہان‘ افشاں گلزار رشید اور رخشندہ ناہید منہ دیکھتی رہ گئیں۔ ٹکٹ اراکین اسمبلی کی سفارش کردہ خواتین کو مل گئے۔ اسی طرح ملتان شہر میں لیبر کی نشستوں پر منیر لنگاہ‘ منظور کھوسہ‘ مطیع الحسن بخاری کو پارٹی ٹکٹ نہ مل سکے۔ ٹکٹ انہیں دے دئیے گئے جن کا پورے افسانے میں کہیں کوئی نام نہ تھا۔ اس سے کارکنوں اور قربانیاں دینے والوں کو سخت مایوسی کا سامنا ہے۔ پارٹی قیادت کو ان کارکنوں کی مایوسی کو دور کرنا ہو گا ورنہ آئندہ عام انتخابات میں اور مشکل حالات میں یہ لوگ نظر نہیں آئیں گے صرف فصلی بٹیرے ہونگے انہیں اڑان بھرنے میں دیر نہیں لگتی۔