27 اکتوبر تاریخ کشمیر کا بدترین دن
جی این بھٹ
27 اکتوبر کا دن وہ المناک دن ہے جس دن بھارتی افواج نے سرینگر کے ہوائی اڈے پر طیاروں کے ذریعے قدم رکھا اور ریاست جموں و کشمیر میں غلامی کی ایک طویل سیاہ رات کا آغاز ہو گیا۔ 14 اگست 1947ءکو تقسیم برصغیر کے اصولوں کے تحت مسلم اکثریت ریاست جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہونا طے تھا۔ مہاراجہ کشمیر نے قائد اعظم کے ساتھ جوں کا توں یا جیسا ہے جیسے ہے کہ اصولوں کے تحت کشمیر کی پاکستان کے ساتھ الحاق پر رضا مندی ظاہر کر دی تھی قیام پاکستان کے ساتھ ہی وادی کے طول و عرض میں پاکستانی پرچم سرکاری عمارتوں اور گھروں پر کشمیری عوام نے لہرا دیئے تھے۔ ایسے میں قبائلی لشکر نے جنہیں پونچھ مظفر آباد کوٹلی اور باغ کے مسلمانوں کی مدد اور حمایت حاصل تھی کی طرف سے اچانک ریاست جموں و کشمیر پر چڑھائی سے مہاراجہ خوفزدہ ہو گیا قبائلیوں کے لشکر نے سرعت کے ساتھ سرینگر تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ سرینگر چند میل کی ساخت پر تھا مگر عاقبت نا اندیش قبائلی لشکر نے لوٹ مار کا جو بازار گرم کیا اس سے ان کی فتوحات میں آگے بڑھنے کی رفتار میں کمی آ گئی اور دوسری طرف موجودہ آزاد کشمیر میں تحریک آزادی کے باعث بھی مظفر آباد سے چکوٹھی تک کا علاقہ کشمیریوں کے ہاتھ آ گیا۔ ان حالات میں مہاراجہ کشمیر نے سرینگر سے راہ فرار اختیار کی اور جموں چلا گیا جہاں بھارت کے نمائندہ وفد کے ساتھ ملاقات کے بعد ان کی چالوں میں الجھ کر مہاراجہ نے بھارت سے جموں و کشمیر کو بچانے کی آڑ میں الحاق کا معاہدہ کر لیا جو اصول تقسیم ہند کے سراسر خلاف تھا اور اس خلاف ورزی میں بھارتی رضا مندی اور مکمل سازش شامل تھی نہرو کشمیری ہونے کے ناطے اپنی تخیلاتی دنیا میں کشمیر جنت بے نظیر کی دنیا سجائے بیٹھا تھا۔ بقول شیخ عبداللہ کشمیر کے ذکر پر نہرو جذباتی ہو جاتے اور ان کا چہرہ کشمیری سیب و گلابوں کی طرح تمتا جاتا۔ انگریزوں اور بھارتی حکمرانوں کی مکاری اور مہاراجہ کشمیر کی غداری کی وجہ سے 70 لاکھ کشمیری غلامی کے اندھیروں میں کھو گئے مگر چند غدار خاندانوں کے سوا کسی کشمیری نے ذہنی اور دلی طور پر بھارت کی غلامی قبول نہیں کی۔ آج 70 برس گزرنے کے باوجود کشمیریوں کے پائے استقلال میں لرزش نہیں آئی۔ سب سے پہلے جموں و کشمیر محاذ رائے شماری کے نام سے بننے والی تنظیم نے بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا جس کے شہدا کی فہرست میں سب سے بڑا نام مقبول بٹ شہید کا ہے۔ اس کے بعد 1990ءمیں جے کے ایل ایف پھر حزب المجاہدین نے اس تحریک آزادی کو مسلح رنگ دیا جو اسلامک سٹوڈنٹ موومنٹ کے چند سر پھرے نوجوانوں نے شروع کی تھی۔ 2016ءمیں برہان وانی کی شہادت نے اس تحریک کو مزید مہمیز دی اور وادی کے چاروں طرف آزادی تحریک نے نئی انگڑائی لی۔ پوری وادی کشمیر ایک بار پھر شہیدوں کے لہو سے سرخ ہو گئی بھارتی افواج نے دنیا بھر کے ظالمانہ وحشیانہ تشدد اور خطرناک اسلحہ استعمال کر کے دیکھ لیا مگر کشمیریوں کے جذبہ آزادی سرد نہیں ہو رہا۔ آج 3 ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا پوری وادی کرفیو اور ہڑتال کی زد میں ہے پوری ریاست ایک محصور قلعہ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ جسے سات لاکھ غاضب درندہ بھارتی افواج کے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ شہروں اور دیہات میں لاکھوں کی آبادیاں بھوک و کمزوری سے بے نیاز ہر طرح کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ بھارت سامراج کی پوری کوشش ہے کہ بھوک پیاس اور مظالم کے بل بوتے پر ایک بار پھر تحریک آزادی کا دم خم توڑ دے مگر کشمیریوںنے بھی عہد کر رکھا ہے کہ وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اب عالمی برادری اور خاص طور پر مسلم ممالک کو چاہئیے کہ وہ آگے بڑھ کر کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی رکوائے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اقوام متحدہ اور دنیا کی انا داتا پانچ بڑی طاقتوں کی مسئلہ کشمیر پر بے حسی اور خاموشی نہایت افسوسناک ہے۔ اس طرح تو وہ بھارتی غاضب اور ظالم افواج کی سرپرستی کر رہی ہیں ان کی مددگار بنی ہوئی ہیں۔ کیونکہ ظالم کا ہاتھ نہ روکنا بھی ظالم کے ظلم میں شریک ہونے کے برابر ہے کیا اقوام عالم کو ایک لاکھ سے زیادہ بے گناہ کشمیریوں کا لہو نظر نہیں آتا۔ پیلٹ گن سے معذور ہونے والے اندھے ہونے والے بچے نظر نہیں آتے۔ کیا صرف مشرقی تیمور اور دارفر میں ہی انسان آباد تھے جنہیں بچانے کیلئے وہاں رائے شماری کرا کے انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا۔ کیا اقوام عالم بھول رہی ہے کہ خوداقوام متحدہ نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں رائے شماری کرانے کی قرار داد منظور کی ہوئی ہے جس پر بھارت نے بھی رضا مندی ظاہر کی ہے۔ تو اس قرار داد پر عملدرآمد کرانے میں اب کونسی رکاوٹ رہ گئی ہے اور اسلامی دنیا کیا کشمیر میں آخری مسلمان کشمیری کے مرنے کے بعد اس مسئلہ پر زبان کھولے گی۔ وہ بھارت سے تجارتی سیاسی اقتصادی سفارتی تعلقات ختم کرنے کا دباﺅ ڈال کر اسے کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے پر مجبور کرے۔ بھارت عالمی اور مسلم ممالک کے ساتھ بگاڑ کا دباﺅ برداشت نہیں کرے گا اور اسے بہت جلد یہ مسئلہ حل کرنے پر آمادہ ہونا پڑے گا۔