قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کسی لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیا ہے کہ ’’نواز شریف کو سیاست نہیں آتی۔‘‘ خورشید شاہ کے اس بیان کو ’’میثاق جمہوریت‘‘ کا حسن قرار دینے کو دل چاہتا ہے۔ جمہوریت میں تو قائد حزب اختلاف ایسی بات کرے تو اسے دماغی توازن خراب ہونے کا طعنہ سننا پڑتا ہے کیونکہ جمہوریت میں حزب اختلاف دراصل حزب اقتدار کی ’’گورنمنٹ ان ویٹنگ‘‘ ہوتی ہے اور اس کا سربرا ہ ’’لوز ٹاک‘‘ یا نامعقول بات نہیں کرتا، وہ ایسی بات بھی نہیں کرتے جو خلاف واقعہ ہو، وہ ایسے تبصرے بھی نہیں کرتا جو اسکے منصب کے منافی ہوں۔ وہ ذاتیات کے حوالے سے بات کرنے سے اجتناب کرتے ہیں وہ بہت کم بولتا ہے بولنے سے پہلے تولتا ہے اور سوچتا ہے۔ قومی معاملات پر جہاں ضرورت ہو رائے دیتا ہے۔ میڈیا کی ہر وقت دسترس میں نہیں ہوتا وہ ملکی ترقی و خوشحالی کے منافی کسی پالیسی پر اپنی رائے دیتا ہے۔ قائد ایوان سے ذاتی تعلقات جس نوعیت کے بھی ہوں خواہ وہ بہت اچھے ہوں بھائیوں جیسے ہوں وہ اس پر قومی معاملات میں لحاظ اور رواداری کی پالیسی اختیار کرنے کو سیاسی گناہ سمجھتا ہے۔ جہاں قائد ایوان کوئی قومی غلطی کرے سب سے پہلے اسکی نشاندہی اور تدراک کا مطالبہ کرنے والا لیڈر آف اپوزیشن ہوتا ہے۔ وہ اپنی پوزیشن سے سیاسی فائدے نہیں اٹھاتا، وہ کسی بھی قسم کی دو نمبری کو اپنی اور جمہوریت کی موت سمجھتا ہے۔ وہ اس منصب کو اعزاز نہیں بھاری ذمہ داری سمجھتا ہے وہ اپنے طرز عمل سے اپنے عوام کے دلوں میں اس طرح گھر کر جاتا ہے کہ وہ اسے اپنا اگلا حکمران بنانے کا عزم کر لیتے ہیں۔ کبھی موجود ٹرم مکمل ہونے کے بعد اور کبھی اسکے درمیان میں اگر قائد ایوان کوئی بڑا بلنڈر کرے تو اسکو گھر بھیجنے والے کسی 58-2-B کی ضرورت محسوس نہیں کرتا بلکہ اپنی حب الوطنی اور سیاسی بصیرت و دانش کے سبب ایوان کو بالخصوص اور عوام کو بالعموم یہ باور کرا دیتا ہے کہ وہ وطن کو اس مشکل سے نکال سکتا ہے، قائد ایوان کو ٹرم پوری کرنے کا رسک نہیں لیا جا سکتا۔
چنانچہ ’’ووٹ آف نو کانفیڈنس‘‘ کے ذریعے اسے ہٹا کر اسکی سیاسی بساط لپیٹ کر نئی حکومت میں سب سے زیادہ طاقتور امیدوار کے طور پر سامنے آتا ہے اسکی نظر چوبیس گھٹنے قوم کی فلاح و ترقی پر ہوتی ہے اس ضمن میں دھڑلے سے حکومت کے سامنے اپنا مؤقف پیش کرتا ہے۔ حکومت اگر اسے ’’ابلائج‘‘ کرنا چاہے تو اسے اپنی سیاسی توہین سمجھتا ہے۔ حکومت قائد حزب اختلاف سے اس نوع کی بات کرتے ہوئے خوفزدہ ہوتی ہے اسکے رد عمل کو بھانپ کر کوئی بات کرتی ہے۔ اس کا منصب سیاسی وقار کی علامت ہوتا ہے مگر یہ سب ’’جمہوریت کا حُسن ہے۔ ’’میثاق جمہوریت کا حسن‘‘ اس سے 180 درجے پر دیکھا گیا ہے۔ یہ میثاق جمہوریت اگرچہ برطانیہ میں بیٹھ کر تیار کیا گیا مگر پاکستان اسی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سے بازی لے گیا۔ کسی جمہوریت میں ایسا میثاق محققین بھی تلاش نہیں کر سکیں گے۔ کسی جمہوری ملک میں خواہ وہاں کی جمہوریت ناقص ہو یا مکمل، نیم پختہ ہو یا پختہ، جعلی ہو یا اصلی، نئی ہو یا پرانی اس نوع کا میثاق نظر نہیں آتا اور پھر میثاق جمہوریت پر جس دلجمعی، خلوص اور کمٹمنٹ سے عمل کیا گیا ہے ‘کیا جا رہا ہے‘ اسے یہ میثاق کرنیوالے سیاسی ایمان کہتے ہیں بلکہ ایمان سے بھی اوپر درجہ دیتے تھے۔ خورشید شاہ اس ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی پیدوار ہیں اور اسکی آکسیجن پر زندہ ہیں۔ اس میثاق کے تحت پہلے آصف علی زرداری نے پانچ سال حکومت کی، اپنے بدترین سیاسی مخالفین ن لیگ کو پہلے حکومت میں شامل کیا۔اور چند ماہ میں ہی ان کے وزراء نے خود کو دو نمبر شہری اور دو نمبر وزیر یا دو نمبر کی وزارت تک محدود اور مجبور سمجھا تو اپنے لیڈر نواز شریف سے بات کر کے استعفے دے دیتے جن کو قبول کرنے میں بہت وقت لگا اور غالباً اسی عرصہ میں میثاق جمہوریت کا مطالعہ ہوتا رہا اور پھر استعفے منظور کرنے کا زبانی میثاق جمہوریت ہوا کہ پہلا اپوزیشن لیڈر ن لیگ کے اپوزیشن میں آنے کا کے بعد ختم ہوجائے گا، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چودھری پرویز الٰہی کی جگہ ن لیگ اپنا اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی لے آئیگی لیکن یہ اپوزیشن جمہوریت والی اپوزیشن نہیں ہوگی ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ ہو گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔
جمہوریت میں اپوزیشن کو تین طلاقیں دیکر میثاق جمہوریت کی ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ نے حکمرانوں اور اپوزیشن دونوں کیلئے کئی ایمبریسمنٹ کے مواقع پیدا کئے مگر میثاق جمہوریت فریقین میں سے کسی کی بھی میثاق کے ساتھ کمٹمنٹ میں کمی نہ کر سکا۔ آواز خلق کو نقارہ خدا سمجھنے سے انکار اسی دور میں سامنے آیا اور آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا کی غلط تشریح کر کے عوامی مطالبات، خواہشات اور ضرورتوں کو نظر انداز کرنے یا قومی خسارے کی ذمہ داری تہمت لگانے یا اس پر ابائوٹ ٹرن لینے کا مطالبہ کرنیوالی اپوزیشن اپنی کمٹمنٹ کی وجہ سے فرینڈلی اپوزیشن بنی رہی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہر چوتھے روز جاتی امرا جا کر اپنی حکمت عملی پر مہر لگواتے رہے نہ کسی کی تنقید کی پرواہ کی نہ کسی کے اعتراض کی فکر، یہ تنقید تو اعتراض کرنے پر سیاسی طور پر معمور جماعت حق دوستی ادا کرنے میں جتنی فراخدلی تھی اسکے سبب آصف زرداری نے جس طرح چاہا حکومت کی اور جب یوسف رضا گیلانی کو زیادہ پَر پُرزے نکالتے دیکھا اور اسی زعم میں کہ اسے صرف پیپلز پارٹی نے نہیں پورے ایوان نے وزیراعظم چُنا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں وہ پہلا وزیراعظم ہے جسے متفقہ طور پر چُنا گیا۔ وزیراعظم گیلانی کے نواز شریف سے بڑھتے رابطے اور اسی پر ن لیگ کے وزیراعظم ہونے کی پھبتیوں نے آصف زرداری کو چوکنا کر دیا اور سپریم کورٹ پر اسوقت چیف جسٹس افتخار چودھری کی دکھتی راگ کو چھیڑ کر اور اسے ہم جوئیانہ انداز سے فیصلہ کرنے کی پچ پر لا کر پہلے آصف زرداری نے یوسف رضا گیلانی کا پتہ صاف کیا اور پھر بہت ہی پھرتیلے وزیر قانون بابر اعوان سے افتخار چودھری کی اصلیت ظاہر کرنے کے ٹاسک کے مکمل ہوتے ہی اسکے بھی پَر کاٹ دئیے۔ اس ساری کارروائی میں فرینڈلی اپوزیشن نے اپنے کردار کو اسطرح نبھایا کہ آصف زرداری نے آئین میں ترمیم، صوبہ سرحد کا نام بدلنے اور کسی کو عملاً اپنے پیچھے لگانے یا اپنی مخالفت سے باز رہنے اور پاکستان کی اساسی بنیادوں پر سمجھوتہ کرنے۔ قائداعظم کے نظریات کیخلاف ذوالفقار علی بھٹو کے بنائے ہوئے آئین میں من پسند ترامیم کرنے، انہیں منظور کرانے کا کام ان لوگوں سے لے لیا جنہیں بھٹو اپنے حصے کی چلم بھرنے کی بھی اجازت نہ دیتے وہ تو آئین بناتے ہوئے معروف قانون دان اور اسوقت کے وزیر قانون میاں محمود علی جیسے قد آور شخص کو برداشت نہ کر سکے اور انکی آئین کے بارے معقول رائے کو نامعقول قرار دیکر انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا۔ حفیظ پیرزادہ نئے وزیر قانون نے بھٹو کی اسی انا کا پاس کیا اور آئین میں اپنے لیڈر کی سوچ کو اولین ترجیح دی۔ اسی آئین کو آصف زردای نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے جس طرح تباہ کیا ہے اس آئین اور بھٹو دونوں کی روحیں خوب زخمی ہوئیں اور بھٹو کی زخمی روح اب بھی تڑپ رہی ہوگی۔
رہی یہ بات کہ خورشید شاہ کو اس بات پر حیرت ہے کہ حساس خبر کے افشا کرنے پر دو ہفتے بعد بھی خبر افشا کرنے والا نہیں پکڑا گیا۔ خورشید شاہ کی سیاسی سوجھ بوجھ جاننے کیلئے کافی ہے کیا وہ اسے نواز شریف کی سیاسی بصیرت و طاقت نہیں سمجھتے کہ اس نے ایک طرف اپنے پھرتیلے وزیر داخلہ کو خاموش کرا دیا۔ اس کمیٹی کی رپورٹ جو وزیر داخلہ تین چار دن میں سامنے لانے کا دعویٰ کر رہے غتربود کر دیا۔ کور کمانڈرز کانفرنس میں اعلیٰ فوج قیادت سے قومی سلامتی کے منافی بیان پر بھی کامیاب سیاست کی۔ یہ خورشید شاہ کو کہا شاید ان کے گرو آصف زرداری کو بھی سمجھ نہ آئے۔ میاں صاحب ایک وقت میں چومکھی سیاست لڑتے ہیں اور سیاسی لڑائی ہی انکی سیاست ہے۔ میثاق جمہوریت کے طفیل آصف زرداری کی جان بخشی ہو گئی ہے۔ نواز شریف کی سیاسی چالیں اتنی کامیاب رہیں کہ دس سال کے لگ بھگ وطن سے دور رہ کر انہوں نے سیاست میں اپنے آپ کو منوایا اس کیلئے ’’فاؤل پلے‘‘ یا سیاسی چکربازی کو انہوں نے کبھی ناجائز نہیں سمجھا۔ وہی آصف زرداری جو ان کی سب سے بڑی مخالف سیاسی جماعت کا گرو بن چکا تھا اور جسے ان کا چھوٹا بھائی شہباز شریف ہوش و حواس سے طعنے دیتا، اس کا پیٹ پھاڑ کر حرام کی دولت نکالنے کا دعویٰ کرتا نوازشریف کے در دولت پر جا کر حاضر ہو گیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ’’اک زرداری سب پر بھاری‘‘ صرف نعرے کی حد تک ہے وگرنہ نواز شریف بھاری ہے، عوام پر، سیاست پر، سیاسی جماعتوں پر حتیٰ کہ فوج پر بھی۔ وگرنہ کور کمانڈر کانفرنس اپنے اعلان اور تشویش پر اپنا کوئی ردعمل دے چکی ہوتی جس کے بعد خورشید شاہ کو حیرت نہ ہوتی۔ البتہ انکی اس بات سے کسی حد تک اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ وہ خود ایک جماعت کے سربراہ ہو کر اپنی طاقت کو منوا کر بھی اپوزیشن لیڈر نہیں بن سکے اور وہ شخص اپوزیشن لیڈر ہے جو لیڈر بھی نہیں اور اپوزیشن بھی نہیں۔ یہاں عمران خان کو سیاست نہ آنے کا طعنہ دیا جا سکتا ہے‘ سولو فلائٹ شوق اور خورشید شاہ کی طرح بے سوچے سمجھے بڑے بڑے دعوے اور اعلان اور ایک شاطر اینکر کے فریب میں آنا اور اپنے ہی ساتھیوں کو خود بدل دینا عمران خان کی سیاسی تنہائی اور ناکامی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ پھر بھی وہ خود خورشید شاہ کیا ان کے لیڈر سے بھی بڑا سیاستدان سمجھتے ہیں اور یقیناً بہت سے لوگ انکے ہم خیال ہیں۔ اگر عمران خان کو سیاست آ جاتی تو وہ اپوزیشن لیڈر تو لازماً ہوتے اور پھر شاید حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرتے یا کم از کم نوازشریف انہیں اتنا آسان نہ لیتے جتنا وہ خورشید شاہ کو بطور اپوزیشن لیڈر لیتے ہیں۔ خورشید شاہ اگر پچھلے تین ماہ کے اپنے ہی پیغامات پڑھ کر دیکھ لیں تو وہ محسوس کرینگے کہ وہ اپنی اپوزیشن خود کر رہے ہیں اور یہی ’’میثاق جمہوریت کا حسن ہے‘‘۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024