دھرنا آگے اور پارلیمنٹ پیچھے پیچھے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ بہت ہی پیچھے۔ جس دیس میں تانگہ پارٹی کے سربراہ شیخ رشید کی سیاست کا میاب ہو جائے بقول ساغر صدیقی اُس دیس کے سلطان سے کوئی بھول ہوئی ہے۔ جس کا خمیازہ آج ساری قوم بھگتنے جا رہی ہے۔ عمران اور قادری کے پس منظر میں ماسٹر مائنڈ یہی شیخ رشید ہیں، جو ذاتی طور پر اپنی سیاسی جماعت کی قوت و طاقت سے تہی دامن ہونے کے باوجود پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کی لیڈرشپ کو نت نئے آئیڈیاز سے بہرہ مند کرتے اور پھر انہیں رو بہ عمل کرنے کی بھی اپنے تئیں کوشش کرتے ہیں۔ رائے ونڈ میں دھرنے سے لے کر اسلام آباد بند کرنے کا سارا "فلسفہ و نظریہ" شیخ رشیدی طرز سیاست کا ہی کیا دھرا ہے۔ خدا خیر کرے اب تو یہ دھرنا لال حویلی کے نزدیک ہی دیا جانے والا ہے، جس کا نتیجہ یہ کہ عمران خان اور طاہرالقادری سے کہیں ذیادہ فعال شیخ رشید ہیں، ان کے پاس ایرے غیرے اور نتھو خیرے والی زبان ہے اور منفیت کی طرف مائل جوڑ توڑ کی صلاحیت بھی، لیکن یار لوگوں کا کہنا ہے کہ اس اچھل کود میں معاملات گھمبیر ہو گئے تو پھر شیخ رشید سمیت سبھی جغداریوں کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔دھرنا ہو گا بھی یا نہیں؟ اور اگر ہو گا تو انجام کار کیا ہو گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ایک عام محب وطن پاکستانی کے ذہن میں ہلچل مچا رہے ہیں۔ سیاسی بصیرت رکھنے والے دردمند پاکستانیوں اور سیاسی کارکنوں کی بات اور ہے، وہ اس امر پر بھی غور کر رہے ہیں کہ ملک کے معروضی حالات کے پیش نظر کیا یہ دھرنے کا صحیح وقت ہے بھی یا نہیں؟ تا دم تحریر کوئٹہ کا دلخراش سانحہ کہ جس میں "را" کا منطقی طور پر ہاتھ موجود ہے، کیا یہ اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنے ازلی دشمن بھارت کو چھوڑ کر نواز شریف کو ہدف بنائیں اور اسلام آباد کی خاکم بدہن اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی سعی کریں؟ پانامہ لیکس ملک کے خلاف بغاوت یا خدا نخواستہ پاکستان کے خلاف غداری کا الزام نہیں، اگر یہ کرپشن بھی ہے تو اس سے قانونی اور آئینی طور پر نمٹنا چاہئیے۔ اسلام آباد بند کرنے کا آخر مطلب کیا ہے؟ یہی ناں کہ ملکی سالمیت کو دائو پر لگا دیا جائے، قومی یکجہتی اور ملی یگانگت کو پامال کرنے کا اس سے بڑا منصوبہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ دھرنا دینے والے یقیناً وہی لوگ ہیں جو سیاسی معاملات کے پس منظر اور پیش منظر سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ تازہ ترین سانحہ کوئٹہ سے ثابت ہوا کہ پاکستان میں دہشت گردی ابھی پوری طرح کنٹرول میں نہیں آئی، آفرین ہے پاک فوج کے جوانوں اور افسروں پر اور پولیس و رینجرز سمیت سیکورٹی اداروں پر بھی جو تن، من اور دھن کی بازی لگا کر تخریب کاروں و دہشت گردوں سے نمٹ رہے ہیں۔ کیا پاکستانی عوام، سیاست دان اور سیاسی کارکنوں کا فرض نہیں کہ وہ بھی اس مہم میں اتنا تو حصہ لیں کہ جو عمل سیکورٹی اداروں کے عزائم میں حائل ہوتا ہو اس سے باز رہیں۔آئینی اور قانونی طور پر دیکھیں تو اس وقت حساس معاملہ دھرنے کا نہیں دارلحکومت اسلام آباد کے بند کرنے کا ہے۔ اس ضمن میں ضرورت اس امر کی تھی کہ تا حال ملک کے آئینی و قانونی ماہرین سمیت پارلیمنٹ اور اسلام آباد کے محافظ فوج سمیت سیکورٹی اداروں کا ردعمل پوری طرح سامنے آچکا ہوتا کہ اسلام آباد بند کرنے کے عزام رکھنے والے سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کو بخوبی علم ہو جاتا کہ وہ کتنا بڑا اور سنگین قدم اٹھانے والے ہیں، جو سراسر ریاست کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ ریاستی سطح پر اس چپ سے معلاملات اور بھی گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں کہ اسلام آباد بند کرنے کے داعی بھانت بھانت کی بولیوں سے اہل اسلام آباد و راولپنڈی اور گردو نواح کے لوگوں میں خوف و حراس پھیلا رہے ہیں۔ پھر چند سوالات منطقی طور پر اس ضمن میں ہمارا منہ چڑا رہے ہیں اور وہ یہ ہیں۔ اسلام آباد بند ہونے کی صورت میں کون محصور ہو گا؟ عام شہری یا ارباب اقتدار؟ دھرنا جو دراصل اسلام آباد کا غیر اعلانیہ محاصرہ بھی ہے اگر طوالت پکڑ گیا تو دارلحکومت کے لوگ کیا بھوک اور دیگر مصائب سے تڑپ نہیں اُٹھیں گے؟ اگر ایسا ہوا تو اس کی ذمہ دار حکومت ہو گی یا اہل محاصرہ؟ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات کا کیا بنے گا؟ تدریسی نظام یک دم فلاپ ہو نے کے نقصانات کا کون ذمہ دار ہو گا؟ محنت کش اور مزدور طبقہ روزی روٹی سے محروم ہو کر کیا کرے گا؟ تاجر اور بزنس مین ہاتھ دھرے بیٹھیں رہیں گے تو معیشت تنزلی کی طرف نہیں جائے گی؟ کارو بار حیات یکسر مفلوج ہو گا تو پھر ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ ان تمام سوالات کے زیر اثر یہ حقیقت اپنی جگہ پوری طرح عیاں و بیاں ہے کہ اہل دھرنا جن ارباب اقتدار کو اسلام آباد میں بند کرنا چاہتے ہیں وہ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بخوبی اپنی نقل و حمل جاری رکھیں گے۔ انہیں تو دھرنا کچھ بھی نہیں کہے گا جب کہ سارا نقصان صرف اور صرف عام شہریوں کا ہو گا۔ جو بھوکے مریں گے اور ضروریات زندگی کو ترستے ہوئے نظر آئیں گے۔ شاید اہل دھرنا کو اس حقیقت کا بھی ادراک نہیں کہ اسلام آباد، راولپنڈی اور گرد و نواح کے شہریوں میں ایک غالب آبادی پی ٹی آئی اور اس کی حلیف جماعتوں کے کارکنوں اور لیڈروں کی ہے جو متاثر ہونگے تو ان کے مصائب دھرنا والوں کے لئے اذیت کا باعث بنیں گے۔
دھرنا والوں کے سامنے ایک اور بہت بڑی سیاسی حقیقت منہ کھولے کھڑی ہے اور وہ یہ کہ دھرنا جو دراصل دارلحکومت کا محاصرہ ہے کے کامیاب ہونے کا ایک فی صد فائدہ بھی تحریک انصاف یا عوامی لیگ کی لیڈر شپ اور کارکنوں کو نہیں ملے گا۔ وہ کیسے؟ وہ اس طرح کہ ری الیکشن کی صورت میں نواز شریف اور ان کی جماعت کا ووٹ پہلے سے کہیں زیادہ ہو جائے گا۔ ہمارے ملک میں سیاسی شہیدوں کو جو فوائد وقت کے ساتھ ساتھ ملتے رہے ہیں وہ ان سے بھی فیض یاب ہونگے۔ جس طرح کے ماضی میں بھی ان کو منطقی طور پر بعض سیاسی فوائد حاصل ہوتے رہے ہیں۔ اور اگر دھرنا یا اسلام آباد کا محاصرہ ناکام ہوا تو یہ بقول عمران خان آخری چانس ہے، اس کے بعد دھرنا ہوگا اور نہ احتجاج۔ اس صورت میں اسے اہل دھرنا کی سیاسی خود کشی ہی کہا جائے گا، یوں بھی سنجیدہ سیاسی حلقوں میں عمران خان کو "سیاسی خود کش بمبار" کے نام سے یاد کیا جا رہا ہے اور سو فیصد یہ پاکستانی سیاست کے لئے ایک افسوسناک امر ہے۔ حقائق ثابت کر چکے ہیں کہ دہشت گرد خود کش بمبار کی طرح سیاسی خود کش بمبار کو بھی کچھ نہیں ملتا، اس کے بھی کوئی فوائد سامنے نہیں آتے، نہ ہی اس کے عزائم پورے ہوتے ہیں۔ مجموعی طور پر عمران خان اور ان کی جماعت کی اس مساعی اور جسارت کو دیکھا جائے تو یہ تخریبی سیاست کی آئنہ دار ہے، اس سے تعمیری اور دور رس مثبت نتائج مرتب ہوں عبث ہے۔ سیاست میں منفی انداز فکر اور عمل کے نتائج ہمیشہ مایوس کن ہوتے ہیں، ملک اور قوم کئی دہائیاں پیچھے چلی جاتی ہے۔ اور بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے کے راستے بھی مسدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا سیانوں کا کہنا ہے کہ عمران خان جو کچھ بھی کر رہے ہیں، جذبات کی رو میں بہہ کر انتہا پسندی کے ذہن کے ساتھ وہ نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں جن کی تہہ میں ذاتیات اور محض مفاد پرستی ہے۔ اس طرز سیاست سے پاکستان کو فائدہ ہو گا، نہ انکی اپنی جماعت میں انقلابی طرز عمل پیدا ہونے کا امکان ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024